اسلام آباد( مہتاب حیدر) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی توسیع شدہ فنڈ فیسلٹی کے تحت ایک بڑا اور طویل پروگرام لینے کا خواہشمند ہے۔
مہنگائی میں کمی کا رحجان ہے،سود کی شرح بھی کم ہوگی، کمرشل فنانسنگ لیں گے اور بانڈز لانچ کرینگے، دوست ممالک سے رقوم جمع کرانے اوررول اوور کرانے کا دور بیت چکا، ایس آئی ایف سی بیرون ملک سے سرمایہ کاری لانے کا اہم پلیٹ فارم ہے ۔
ملک کو ساختیاتی رکاوٹوں کو فکس کرنے کےلیے نفاذ کے موڈ میں آنا ہوگا،آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ اعتماد کا فقدان ہے، سندھ کی طرح وفاق بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اپنا سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کیو بلاک میں چند منتخب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ای ایف ایف پروگرام کا بلیو پرنٹ اور اسے مستحکم کرنے کا امکان بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات میں زیر غور آئے گا۔
وزیر نے تسلیم کیا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ ایک بڑا ایشو ہے اور میکرواکنامک ( کلاں اقتصادیات)استحکام سے ہی اسے بتدریج کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔وزیر نے سی پی آئی کی بنیاد پر مہنگائی میں ہونے والی پیشرفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے کم ہونے کا رحجان دکھانا شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کادائرہ عمل ہے اور اسے فی الوقت خود مختاری حاصل ہے لیکن انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ کم ہوتی ہوئی مہنگائی کے نتیجے میں سود کی شرح بھی مستقبل میں کم ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف سے ای ایف ایف سمجھوتہ ہونے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کمرشل فنانسنگ کے ذریعے غیر ملکی ڈالروں حاصل کریگا اور بین الاقوامی بانڈ لانچ کریگا، انہوں نے مزید کہا کہ’’ ایس آئی ایف سی بیرون ملک سے سرمایہ کاری اور رقوم لانے کا اہم پلیٹ فارم ہے۔‘‘
کیو بلاک میں چند منتخب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر نے کہا کہ رقوم جمع کرنے اور دوست ممالک سے انہیں رول اوور کرانے کا دور بیت چکا ہے چنانچہ اب قابل عمل اور قابل بینکاری پراجیکٹس کو ہی میز پر لایاجاسکے گا۔ وزیر نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے ای ایف ایف پروگرام کے حجم کو ماحولیاتی فنانسنگ کے ذریعے بڑھانے سمیت تمام آپشنز آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں زیر غور آئیں گے۔
وزیر نے تسلیم کیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اعتماد کے فقدان کی وجہ سے وہ ہمیشہ پیشگی شرائط سے بھر پور پروگرام دیتے ہیں کیونکہ وہ جاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک یا دوجائزوں کے بعد اور رقم حاصل کرلینے کے بعد باقی ماندہ پروگرام سے بھاگ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے درخواست کی ہے کہ وہ اسٹینڈ بائی پروگرام کے تحت دوسرا جائزہ مکمل کرے تاکہ اس کی آخری قسط کا اجرا ممکن ہوسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرنے کے قابل ہوں گے یا نہیں اس پر میں خاموش ہوں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فریق آئندہ مذاکرات میں نئے ای ایف ایف پروگرام پر مذاکرات شروع کرنے کےلیے درخواست کرے گی۔
وزیر خزناہ نے کہا کہ ’’ مزید وقت ضائع کرنے کی عیاشی دستیاب نہیں کیونکہ ملک کو ساختیاتی رکاوٹوں کو فکس کرنے کےلیے نفاذ کے موڈ میں آنا ہوگا۔
نقصانات کو ختم کرنا، ایف بی آر میں اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹائزیشن لانا، ریاستی ملکیتی تجارتی اداروں سے نقدرقوم بہنے کا سلسلہ روکنا ترجیحاتی ایجنڈا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تھوک فروشوں، پرچون فروشوں، جائیدادوں اور زرعی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لایاجائےگا۔آئی ایم ایف ریویو مشن 14 سے 18 مارچ 2024 کو اسلام آباد آئے گا تاکہ وہ دوسرا جائزہ مکمل کر سکے جس کے نتیجے میں 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط کا اجرا ہوسکے ۔
وزیر خزانہ نے دوٹو ک انداز میں کہا ہے کہ اسلام آباد آئی ایم ایف سے درخواست کریگا کہ وہ ای ایف ایف کے تحت تازہ بیل آوئٹ پیکج کےلیے مذاکرات شروع کرے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اپریل میں ہونے والے اجلاس میں اس پر غور ہوگا۔
وزیر نے واضح کیا کہ اقتصادی بیماریوں کو فکس کرنے کیلیے کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے ۔ پالیسی تشخیص کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان پر غورو خوص پر انحصار کرنے کے بجائے ان کے نفاذ کا مرحلہ شروع کرے۔
کلاں اقتصادیات ( میکرواکنامک)استحکام سے قیمتوں میں اضافہ کم ہوگا اور سود کی شرح بھی نیچے آئے گی۔
انہوں نے اپنی ترجیحات کا خاکہ بتاتے ہوئے ان میں ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن اور ریاستی ملکیت کے تجارتی اداروں سے ہونے والی لیکج روکنے کو شامل کیا۔
وفاقی سیکریٹر فنانس امداد بوسال اور ڈی جی میڈیا وزرات خزانہ کے ہمراہ اس بات چیت کے دوران وزیر خاناہ نے مزید بتایا کہ ان کے پاس خزانہ اور آمدن دونوں کے قلمدان ہوں گے کیونکہ پہلے جو نوٹیفکیشن نکلا تھااس میں لکھا تھا کہ ان کا قلمدان وزارت خزانہ کا ہوگا جبکہ وہ آمدن کے معاملات بھی دیکھیں گے۔
وزیر نے کہا کہ اعلامیے میں ایک کنفیوژن تھا جو اب رفع ہوگیا ہے۔ وزیر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے گزشتہ چار سے پانچ پروگراموں کے ساختیاتی بینچ مارک ایک سے تھے۔
انہوں نے اسے مباحثے کا کلب بنانے کے بجائے کہا کہ اصلاحاتی منصوبہ پاکستان کا پروگرام ہے۔ انہوں نےمتنبہ کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان ایسے ہی معیشت میں ’ پیوند‘ لگاتا رہے گا جیسے وہ پہلے لگاتارہا ہے لیکن اسے معیشت اس خرابے سے باہر نہیں نکل سکی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ترقی کا راستہ حاصل کرنے کےلیے غیر ملکی زرمبادلہ کے پیچھے بھاگنے کی حکمت عملی کی صورت میں آیا۔ حالانکہ پاکستان ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 9 سے 10 فیصد رکھ کر ترقی کرہی نہیں سکتا اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ اسے ڈبل ڈیجٹ میں لایاجائے۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری ایجنڈے پر عملدرآمد کیاجائےاگا کیونکہ حکومت کو کاروبار نہیں چلانا چاہیے بلکہ اسے صرف نجی سیکٹر کو لیول پلے انگ فیلڈ دینا چاہیے اور جہاں تک کاروبار ہے تو نجی شعبے کو اس میں لیڈنگ رول لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کیلیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر عملدرآمدکرنا ہوگا اور انہوں نے اس حوالے سے سندھ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تھر میں اس ماڈل کو اپنا یاگیا ہے تو وفاقی حکومت اس راستے کو کیوں نہیں اپنا سکتی۔