• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: پرویز فتح…لیڈز
فیض احمد فیض ہماری دھرتی کے ایسے شاعر، ادیب، صحافی اور سیاست دان تھے، جنہوں نے برصغیر میں انقلابی شعور کو جنم دینے، تحریک آزادی میں ایک نیا ولولہ پیدا کرنے اور ادھوری آزادی کی تکمیل کیلئے مذاحمت کی سیاست کی راہیں ہموار کیں۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے عالمی شعراء میں ہوتا ہے۔ فیض کی نظمیں اور تحریریں آج بھی آمریت، معاشی استحصال، سماجی جبر اور سامراجی بربریت کے خلاف ایک غیر متزلزل مزاحمت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ترکی کے ناظم حکمت، چلی کے پابلو نیرودا، فلسطین سے محمود درویش اور ہمارے پیارے فیض احمد فیض کی شاعری جغرافیائی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے آفاقی اثر رکھتی ہے، غلامی کی زنجیروں کو توڑتی ہے اور سماجی تبدیلی کا ولولہ پیدا کرتی ہے۔ فیض احمد فیض شاعری کے ایک نئے دبستان کے بانی ہیں جس نے جدید اردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنا ر کیا۔ ان کی آواز، دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حسن و عشق کے دلنواز گیتوں اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں، اپنے عہد کے انسان، اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتے ہیں۔ فیض ایسے شاعر تھے، جو لکھتے تھے اور جیل میں ڈال دیئے جاتے تھے پھر لکھتے تھے اور پھر جیل جاتے تھے، پھر وہ جیل میں ہی لکھتے تھے۔ قیامِ پاکستان سے ہی ملک میں موجود استحصالی نظام کو دوام بخشے لی لیے، ایک مخصوص قسم کی ذھن سازی کی گئی تھی۔ اسی لیے سوشلزم جو کہ ایک معاشی نظام ہے، اُسے لادینت کے معنی پہنائے گئے تا کہ ملکی اشافیہ، ضاگیرداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی ساز باز سے مسلط کردا استحصالی نظام کو دوام بخشا جا شکے۔ حالانکہ مذہب کے بارے میں سوشلزم اور جمہوریت دونوں سیکولرزم پر بنیاد رکھتے ہیں جس کا مطلب مذہب اپنا اپنا، ریاست سب کی سانجھی، ریاست تو اپنے شہریوں کی ماں ہوتی ہے اور ماں ایک شہری کی سگی اور دوسرے کی سوتیلی کیسے ہو سکتی ہے۔ فیض احمد فیض اور اُن کے ساتھیوں پر وطن دشمن کے الزامات بھی لگتے تھے۔ پرمنگھم سے تعلق رکھنے والے نامور ترقی پسند ادیب بدرالدین بدر جی نے ایک مرتبہ ہمیں فیض احمد فیض سے پہلی ملاقات کا دلچسپ قصہ سنایا۔پچاس کی دہائی میں فیض صاحب نے کراچی سے لندن کا سفر کرنا تھا اور پی آئی اے کی فلائیٹ کینسل ہو گئی تھی۔ بدر جی اُن دنوں کراچی کی بڑی ٹریول ایجنسی کے منیجر تھے۔ اُنہیں اُس وقت کے وزیرِ خارجہ کا ذاتی فون آیا کہ فیض احمد فیض کی فلائیٹ کینسل ہو گئی ہے اور ان کے سفر کے لیے کسی متبال فلائٹ پر انتظام کر دیں تا کہ اُنہیں کوئی مشکل نہ اُٹھانی پڑے۔ جب اُنہوں نے فیض احمد فیض سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ بھائی میں تو اپنی قومی ائرلائن پر ہی جاؤں گا، خواہ مجھے ایک کی بجائے کئی ہفتے انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس سے آب اندازہ لگا سکتے ہیں، فیض احمد فیض حب الوطنی کی اعلیٰ مثال تھے۔ جب 1977ء میں ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو فیض کیلئے پاکستان میں رہنا ناممکن ہوگیاتھا۔ ان کی سخت نگرانی کی جا رہی تھی اور کڑا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا، ایک دن وہ ہاتھ میں سگریٹ تھام کر گھر سے یوں نکلے جیسے چہل قدمی کیلئے جا رہے ہوں اور سیدھے بیروت پہنچ گئے۔ اس وقت فلسطینی تنظیم آزادی کا مرکز بیروت میں تھا اور یاسر عرفات سے ان کا یارانہ تھا۔ بیروت میں وہ فلسطین کی تحریک آزادی کے علم بردار رسالہ "لوٹس" کے مدیر بنا دیئے گئے۔ 1982ء میں، خرابیٔ صحت اور لبنان جنگ کی وجہ سے فیض پاکستان واپس آ گئے۔ وہ دمہ اور لو بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ 1984ء میں انھیں ادب کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا لیکں کسی فیصلے سے پہلے ہی، وہ 20نومبر 1984ء کو انتقال کر گئے۔ جب 20نومبر 1984کو فیض کا اتتقال ہوا، تو میں اُن کے جنازے میں شامل تھا۔ میں اُن دنوں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور طلباء سیاست میں سرگرم تھا، مجھے آج بھی یاد ہے کہ استاد دامن اُن کی میت کے پاس بیٹھے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، لوگوں کی عقیدت کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں ہر طرف سے سرخ پرچم لہراتے مزدوروں کے قافلے آ رہے تھے، جب جنازہ اُٹھا تو اس کے ساتھ ساتھ شلوار قمیض میں ملبوس اور ہوائی چپل پہنے سوویت یونین کے سفیر عبدالرحمٰن خلیل سمرنوف نے بغیر کسی سیکورٹی اور ٹرانسپورٹ کے 3 میل پیدل سفر کیا تھا۔ آج پاکستان میں کینسر کی طرح پھیلی ہوئی انتہا پسندی، عالمی امن، قوموں کے درمیان اعتماد، دوستی، ہم آہنگی اور انصا ف کیلئے فیض کا پیغام اور افکار ایک مکمل اور بنیادی حیثیت کے حامل بن چکے ہیں۔ فیض کے کلام، نظریات اور جدوجہد کا مخاطب پوری دُنیا کے مظلوم و محکوم عوام ہیں۔ انہوں نے ہر ملک، ہر مذہب اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کیلئے آزادی، حریت، عدل و انصاف اور مساوی بنیادوں پر ترقی، خوشحالی اور کامیاب مستقبل کی جدوجہد کی ہے۔ میرے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ فیض احمد فیض ہمارے ہم وطن تھے۔
یورپ سے سے مزید