اے باد صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا
اے باد صبا! کملی والے سے جا کہيو پيغام مرا
قبضے سے امت بيچاری کے دیں بھی گيا، دنیا بھی گئی
يہ موج پريشاں خاطر کو پيغام لب ساحل نے ديا
ہے دور وصال بحر بھي، تو دريا ميں گھبرا بھی گئ!
عزت ہے محبت کی قائم اے قيس! حجاب محمل سے
محمل جو گيا عزت بھی گئ، غيرت بھی گئی ليلا بھی گئی
کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی
آوارگی فطرت بھی گئ اور کشمکش دریا بھی گئی
نکلی تو لب اقبال سے ہے، کيا جانيے کس کی ہے يہ صدا
پيغام سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی
……لوح بھی تو قلم بھی تو……
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب
عالمِ آب و خاک میں تیرے حضور کا فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
شوکت سنجر و تیرے جلال کی نمود
فقر و جنید بایزید تیرا جمال بے نقاب
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب
……حضور رسالت مآب میں……
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہُوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہُوا
قیودِ شام و سحَر میں بسر تو کی لیکن
نظامِ کُہنۂ عالم سے آشنا نہ ہُوا
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیۂ رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو
کہا حضورؐ نے، اے عندلیبِ باغِ حجاز!
کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گُداز
ہمیشہ سرخوشِ جامِ وِلا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز
اُڑا جو پستیِ دنیا سے تُو سُوئے گردُوں
سِکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بُو آیا
ہمارے واسطے کیا تُحفہ لے کے تُو آیا؟
حضورؐ! دہر میں آسُودگی نہیں مِلتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں مِلتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں مِلتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے، جنّت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری اُمّت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہُو اس میں