• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’شکر گزاری‘‘ یہ طرزِ فکر فقیری میں بھی بادشاہ بنا دیتا ہے

آسیہ عمران

خلیفۂ ثانی، امیر المومنین، حضرت عُمر رضی اللہ عنہ طوافِ کعبہ کے دوران ایک بدو(دیہاتی) کو ربّ ِ کعبہ سے ایک عجیب دُعا کرتے دیکھ کر متعجّب ہوتے ہیں۔ بدو باآوازِ بلند التجا کر رہا ہے کہ’’ربّ ِ کعبہ! مجھے اپنے قلیل بندوں میں شامل فرما۔‘‘ حضرت عُمر رضی اللہ عنہ طواف کے بعد اُس بدو سے ملتے ہیں اور اُسے اپنے ساتھ بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ’’ وہ قلیل لوگ کون ہیں، جن میں آپ شامل ہونا چاہتے ہیں؟‘‘ اِس پر وہ قرآنِ کریم کی آیت تلاوت کرتا ہے۔ترجمہ: ’’ میرے بندوں میں سے کم ہی شُکر گزار ہوتے ہیں۔‘‘ 

استادِ محترم نے تفسیر کلاس میں شُکر گزاری سے متعلق ایک منفرد بات بتائی کہ شُکر کا ایک مطلب قدردانی بھی ہے۔ دراصل، اللہ خود قدردان ہے، اس نے ہر مخلوق کی قدر دانی کی ہے، اُسے اُس کا متعیّن مقام دیا ہے۔ اِس طرح اللہ چاہتا ہے کہ اُس کی مخلوق بھی اُس کی قدر دانی کرے۔ اللہ کو، اللہ کی مخلوقات کو اُن کے متعیّن مقام پر رکھے۔ سوال تھا’’ انسان کے شُکر، یعنی قدردانی کی صورت کیا ہوگی؟‘‘کہنے لگے’’ سادہ سی بات ہے۔ اللہ نے آپ کو آپ کا مقام دیا، عزّت دی۔ قدردانی یہ ہے کہ آپ دوسروں کو اُن کا مقام اور عزّت دیں۔ اللہ نے مال سے آپ کی محتاجی دُور کی، تو اس کی قدردانی یہ ہے کہ آپ دوسروں کی محتاجی دُور کرنے میں لگ جائیں۔

اللہ نے آپ کو علم دے کر ذہن کی گرہیں کھولیں، تو آپ اس علم سے دوسروں کی الجھنیں دُور کرنے لگ جائیں۔ اللہ نے صحت دی، اس صحت سے دوسروں کی صحت کے تحفّظ کے لیے کام کیا جائے۔لیکن یاد رہے، مومن یہ سب کرتے لوگوں کو اپنے نہیں، اللہ کے قرب کے راستے پر لگاتا ہے۔ لوگ اس کی طرف متوجّہ ضرور ہوتے ہیں، اس سے محبّت بھی کرنے لگتے ہیں، مگر وہ کہہ دیتا ہے’’ اس میں اس کا کوئی کمال نہیں، وہ ربّ کریم کی طرف جانے کا راستہ سیدھا کر رہا ہے۔

اسی رب کی تفویض کردہ ذمے داری پوری کر رہا ہے۔‘‘دوسرا سوال تھا’’ اللہ سے ہمارا کیا تعلق تھا کہ اُس نے شُکر کا حکم دیا؟‘‘ جواباً کہنے لگے’’ جب اللہ نے ہمیں پیدا کر کے ہماری قدردانی کی، تب ہم نے اللہ کے قریب ہونے کی خواہش کی۔ اللہ سے کہا’’ ہمیں سادہ اور سیدھا راستہ بتا۔‘‘تب اللہ نے شُکر گزاری کا راستہ بتایا۔ شیطان نے اللہ کو چیلنج کیا اور انسان کے سیدھے راستے کی راہ پر رکاوٹ ڈال کر بیٹھ گیا۔ اس سے انسان کا بلند مقام، عزّت افزائی اور قدردانی برداشت نہ ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ انسان اس مقام کے قابل نہیں ہے، وہ ناشُکرا ہے۔ 

شیطان نے انسان کی ناشُکری ثابت کرنے کے لیے مہلت مانگی کہ’’ مَیں اس کا ناشُکراپن ثابت کروں گا۔‘‘ شُکر کی ضد کفر ہے۔ایک طرف انسان ہے، جسے اپنی شُکر گزاری ثابت کرنی ہے، تو دوسری طرف شیطان ہے، جسے انسان کو ہر صُورت ناشُکرا ثابت کرنا ہے۔ گویا، شُکر اور کفر کی جنگ ہے۔جب کوئی شخص مال و دولت، صحت و سکون یا کسی بھی معاملے میں شُکر گزار ہوتا ہے، تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو بڑھا دے گا۔‘‘ یہ بڑھوتری کا معاملہ سمجھنا مشکل تھا۔ 

ہم نے سوال کیا’’ اگر اللہ نے ہمیں دولت دی، ہم وہ سب اللہ کے بندوں میں بانٹ دیں، تو کیا نتیجے میں دُگنی دولت مل جائے گی؟‘‘ اِس پر اُنھوں نے مسکراتے ہوئے کہا’’ بیٹے! یہاں معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ یہاں وسیلے کی نہیں، اصل کی بات ہوتی ہے۔دولت سے انسان کو دو چیزیں ملتی ہیں۔ محتاجی ختم ہوتی ہے اور عزّت ملتی ہے۔ دولت ان دو چیزوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ 

جب آپ خرچ کرتے ہیں، تو نتیجے میں آپ کی محتاجی کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔آپ کا مقام اور عزّت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی آپ کو اصل حاصل مل جاتا ہے۔اس بات سے بھی انکار نہیں کہ دولت کی کشادگی بھی ہوتی ہے، برکت بھی بڑھتی ہے، اطمینان بھی ملتا ہے۔ شُکر گزاری کا رویّہ اتنا پیارا رویّہ ہے کہ اس سے دولت کے حصول کی تڑپ نہ صرف ختم ہوتی ہے، بلکہ آپ محدود پیمانے سے نکل کر وسیع پیمانے پر سوچنے لگتے ہیں۔ یہ طرزِ فکر آپ کو فقیری میں بھی بادشاہ بنا دیتا ہے۔ اللہ کا قرب ایسا بلند مقام ہے کہ جس کے راستے کی لذّت ہر تشنگی ختم کر دیتی ہے۔

آپ کے پاس مال و دولت کے انبار نہیں ہوتے، مگر لوگ آپ سے ملنا، آپ کا قرب چاہتے ہیں، آپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ربّ ِ کریم نے اس صفت کو اپنے انبیاء کرام علیہم السّلام سے جوڑا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ہم کلامی اور دیگر نعمتیں یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں’’ شُکر کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔“ حضرت نوح علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا’’ نوح (علیہ السّلام) میرا شُکر گزار بندہ تھا۔“ 

شُکر گزاری نہ صرف انبیاءؑ کا شیوہ ہے، بلکہ مومن سے مستقل مطلوب رویّہ ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے۔ترجمہ: ’’تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شُکر گزار بندوں میں سے ہو جاؤ۔“ اللہ ربّ العزّت کی اپنی صفت بھی الشکور “ ہے، جس کا مطلب ہے تھوڑے عمل پر زیادہ عطا کرنے والا۔ اللہ ربّ العزّت کی اِس صفت کو حدیثِ مبارکہؐ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص نے راستے سے کانٹے کو ہٹایا۔ 

راستہ صاف کیا، تو اللہ نے اِتنی قدر کی کہ اتنے چھوٹے سے عمل کے بدلے اُسے بخش دیا۔ اس طرح ایک شخص نے پیاسی بلّی کو پانی پلایا۔ اللہ ربّ العزّت نے اُسے بھی بخش دیا۔ شُکر گزاروں سے ربّ ِ کریم کا وعدہ ہے کہ اس سے نعمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ علّامہ ابنِ قیم رحمۃ اللہ علیہ نے نعمتوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کی نعمتیں ایک جگہ نہیں رکتیں۔ ان نعمتوں کو شُکر گزاری سے اپنا قیدی بنالو۔ یعنی شُکر گزاری کے سبب نعمتیں اپنے پاس مستقل رکھی جاسکتی ہیں۔ دوسرے معنوں میں آپ کا ان نعمتوں سے غلامی کا تعلق نہیں رہتا۔‘‘