لندن (پی اے) ٹوری ارکان پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے مطالبہ کیا ہے کہ مختلف قومیتوں کے لوگوں کے جرائم کی شرح شائع کی جائے، تاکہ مختلف ممالک کے لوگوں کیلئے ویزا جاری کرنے اور ان کو ملک بدر کئے جانے کی پالیسی کو مضبوط اور مستحکم بنایا جاسکے۔ اس کی پہلی خبر ٹیلی گراف نے دی تھی کہ ایسا حکومت کے کرمنل جسٹس بل میں ایک ترمیم کیلئے کیا جانا تھا جو امیگریشن کے سابق وزیر رابرٹ جینرک نے پیش کیا تھا۔ حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزرا اس ترمیم پر مناسب غور کررہے ہیں اور اس حوالے سے اپنے ساتھیوں سے صلاح ومشورہ کررہے ہیں جبکہ اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تجویز پر عملدرآمد کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خبر کے مطابق ایک درجن سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ نے انگلینڈ اور ویلز کی عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات میں ملوث تمام ملزمان کی قومیت، ویزا اور اسائیلم کی حیثیت سے متعلق تفصیلات شائع کی جائیں۔ جینرک نے جی بی نیوز کوبتایا کہ میرے خیال میں عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون لوگ ہمارے ملک میں آنا چاہتے ہیں اور امیگریشن کے ہماری معیشت، مالی معاملات اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسے لوگ بھی ہمارے ملک میں آرہے ہیں جو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی یہاں آرہے ہیں جو ہماری مغربی لبرل اقدار اور خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ ہمارے رویئے اور سلوک سے آشنا نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم رشی سوناک نے قانونی مائیگریشن پر پابندی لگانے کی بات کبھی نہیں کی۔ نومبر میں امیگرینٹس کی تعداد میں اشاعت کے بعد رشی سوناک پر اپنی پارٹی کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے مسلسل دبائو کا سامنا ہے کیونکہ2022 میں برطانیہ آنے والے اور یہاں سے واپس جانے والوں کی تعداد میں 45,000 کا واضح فرق ہے۔ جینرک نے دسمبر میں رشی سوناک کی روانڈا بھیجنے کی پالیسی کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیدیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ وزیراعظم کو قانونی طریقے سے برطانیہ آنے والوں سے برطانیہ کے عوام کو پہنچنے والے فائدے کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں وزیراعظم بھی دوسروں کی طرح قانونی طور پر برطانیہ آنے والوں کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتے اور بریگزٹ کو بھی امیگریشن کی شرح کم کرنے کا ذریعہ تصور نہیں کرتے۔ اس سے پہلے رشی سوناک نے کہا تھا کہ وہ امیگریشن کی شرح میں کمی کیلئے جو کچھ ممکن ہوا کریں گےْ۔ حکومت قانونی طورپر بھی برطانیہ آنے والوں کی تعداد کم کرنے کیلئے مختلف طرح کی پابندیاں عائد کررہی ہے۔ جس میں ہیلتھ کیئر ورکرز پر اپنی فیملی کو لانے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ وزیرداخلہ نے مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی کو کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی طلبہ کے روٹ کا جائزہ لیں جبکہ فیملی ویزا کیلئے کم از کم آمدنی کی شرط 11 اپریل سے 29,000 پائونڈ کردی گئی ہے جبکہ 2025 سے یہ حد 38,700 پائونڈ کردی جائے گی۔ جینرک نے امیگریشن کیلئے بالکل ہی مختلف طریقہ اختیار کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اب تک غلط راستے پر چلتے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ہر سال 600,000 سے700,000 تک لوگ آرہے ہیں اور ہم کشتیوں کی آمد بھی نہیں روک سکے ہیں۔ ہوم آفس کی جانب سے اس سال اب تک چینل کراس کر کے آنے والے لوگوں کے جو اعدادوشمار جاری کئے گئے ہیں، وہ پہلے تین ماہ کے دوران اسائیلم کیلئے آنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق منگل کو 7کشتیوں کے ذریعے 338 افراد برطانیہ پہنچے، اس طرح اس سال اب تک یہاں پہنچنے والوں کی تعداد4,644 ہوگئی ہے۔ حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ وزیراعظم اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ مائیگریشن کی اب تک کی سطح بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال وزیراعظم نے امیگریشن میں کمی کرنے کیلئے سب سے بڑے پیکیج کا اعلان کیا، جس کا کسی بھی وزیراعظم نے اب تک نہیں کیا تھا۔ وزیراعظم نےاعلان کیا تھا کہ گزشتہ سال قانونی طریقے سے برطانیہ آنے والے 300,000 لوگ اب نہیں آسکیں گے۔ حکومت شفافیت رکھنے کا عزم رکھتی ہے اور امیگریشن کا ڈیٹا شائع کرنے پر بھاری رقم خرچ کررہی ہے۔ ہماری مہمانداری کا غلط فائدہ اٹھانے والے غیر ملکیوں کو ہم نکال باہر کریں گے۔