• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کی جانب سے گزشتہ ہفتے ملک کے خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات پر مشتمل چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کی شکل میں ایسادھماکہ خیز واقعہ ہوا جس نے قومی سطح پر بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی اور ہمارے نظام عدل پر کے اعتبار پر سنگین شکوک و شبہات کا راستہ کھول دیا ۔ خط میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیزصدیقی کی شکایات پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بنیاد بناتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ عدالتی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، اس ضمن میں بعض واقعات کا ذکر بھی خط میں شامل تھا۔تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا جس کے فیصلے کے تحت چیف جسٹس اور وزیر اعظم کی مشاورت کے بعد گزشتہ روز وفاقی کابینہ کی منظوری سے انکوائری کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا اور یوں حقائق کی چھان بین کی راہ ہموار کردی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کے الزامات کی تحقیقات کے لیے اصول پسندی اور غیرجانبداری کے حوالے سے غیرمتنازع سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس تصدق حسین جیلانی پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے فیصلے نے یہ توقع پیدا کردی ہے کہ اس معاملے کی بے لاگ چھان پھٹک ہوگی، جہاں بھی آئین اور قانون کے حدود سے تجاوز پایا گیا، اس کی نشاندہی کی جائے گی جس کے بعدیہ معاملات عدالت میں جائیں گے اور ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انکوائری کمیشن کی شرائط کار کے مطابق کمیشن جج صاحبان کے الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔ انکوائری کمیشن طے کرے گا کہ کیا کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔ کمیشن ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکے گا۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کے اجلاس نے معزز جج صاحبان کے خط میں انتظامیہ کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیااور واضح کیا کہ ملک کی سیاسی قیادت دستور پاکستان 1973ءمیں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتی ہے۔ بعد ازاں پشاور کے چرچ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے ازخود نوٹس کے فیصلے پر عالمی پذیرائی حاصل کرنے اور دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں ایڈہاک جج کی ذمہ داریاں بھی نبھا نے والے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے میڈیا سے گفتگو میں صراحت کی کہ انہوں نے کمیشن کی شرائط کار کا بغور جائزہ لینے کے بعد ذمے داری قبول کی ہے ، کمیشن کا مقصد عدلیہ کی آزادی برقرار رکھنا ہے اور اس ضمن میں تحقیقاتی عمل مکمل طور پر شفاف اور میرٹ پر ہوگا۔ تاہم تحریک انصاف کی قیادت نے انکوائری کمیشن کے لیے تصدق حسین جیلانی کے تقرر کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جو اس وجہ سے خاص طور پر حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے کہ 2018 میںانتخابات سے قبل بننے والی نگراں حکومت میں وزیر اعظم کے منصب کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے ان کا نام تجویز کیا گیا تھا ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ کمیشن کو فوری طور پر کام کا آغاز کرنے دیا جائے ، پھر تحقیقاتی عمل میں کوئی جھول نظر آئے تو اس پر ضرور گرفت کی جائے لیکن اس سے پہلے کسی احتجاجی رویے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ دوسرے یہ کہ ماضی میں بیشترتحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹیں منظر عام پر نہیں لائی گئیں جبکہ حقائق جاننا قوم کا حق ہے لہٰذا یقینی بنایا جانا چاہئے کہ اس کمیشن کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے گی اور اس کے کام کی تکمیل میں کوئی غیرضروری تاخیر بھی نہیں ہونے دی جائے گی۔

تازہ ترین