اسلام آباد (مہتاب حیدر) اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی سروے آف ایشیا اینڈ پیسیفک (یونیسکیپ) 2024 نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کا ٹیکس فرق مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 3 فیصد ہے جیساکہ یہ جی ڈی پی کے 9 فیصد کی موجودہ سطح کے مقابلے میں 12 فیصد سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ کلاں اقتصادی محاذ پر یونیسکیپ نے رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 2 فیصد اور افراط زر کی شرح 26 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مالی سال 25 میں جی ڈی پی کی شرح نمو 2.3 فیصد تک جائے گی جبکہ مہنگائی 12.2 فیصد تک گر جائے گی۔ ٹیکس کے فرق پر یونیسکیپ کا کہنا ہے کہ ان کے کم ٹیکس کی سطح کے باوجود بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا میں ٹیکس کے فرق معتدل ہیں، اگرچہ اس طرح کے فرق ضروری نہیں کہ چھوٹے ہوں اگر جی ڈی پی کے حصہ کے بجائے موجودہ ٹیکس محصولات کے حصہ کے طور پر ماپا جائے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکس کی بہتر پالیسیاں اور انتظامیہ ہی کم ٹیکس والے ممالک میں ترقیاتی فنانسنگ کے وسیع خلا کو ختم کرنے میں مدد نہیں دے سکتی۔ سماجی و اقتصادی ترقی اور عوامی نظم و نسق میں مجموعی طور پر بہتری کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر ٹیکس ریونیو میں اضافے کی ضرورت ہوگی۔ رواں مالی سال کے لیے 9415 ارب روپے کے متوقع سالانہ ٹیکس وصولی کے ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے ایف بی آر کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب جی ڈی پی کے 9 فیصد کے قریب ہے۔ یونیسکیپ نے اندازہ لگایا ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب جی ڈی پی کے 12 فیصد تک جا سکتا ہے۔ اس کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں معیشت کو سیاسی بدامنی کا سامنا کرنا پڑا جس کے کاروبار اور صارفین کے جذبات پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ ایک بڑے سیلاب نے زرعی پیداوار کو متاثر کیا۔ سری لنکا کی معیشت 2022 میں 7.4 فیصد سکڑنے کے بعد 2023 میں 2.3 فیصد سکڑ گئی۔ پورے خطے میں مجموعی مالیاتی دباؤ کے تناظر میں پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک نے آئی ایم ایف سے بیرونی امداد کا سہارا لیا ہے۔