خوشی اور مسرت انسان کی زندگی کا لازمی جز ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کا حق بھی ہے ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے شاید اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نیرنگ دنیا کا اتار چڑھاؤ دیکھنے والے انسان کو دو تہوار عیدالفطر اور عیدالاضحی صرف خوشی منانے کو دیئے ہیں۔ خوشی، مسرت، انبساط اور خوشگوار ہلچل والا دن ’’ عیدالفطر‘‘ کہلاتا ہے ،جو روزے داروں کو انعام کے طور پر دیا گیا ہے۔
خوشی کا دن تو خوشی سے ہی منانا چاہیے اسی لئے عید کے چاند کے ساتھ ہی عید کی روایتی چہل پہل شروع ہوجاتی ہے۔ رمضان سے پہلے سے عید کی تیاریاں شروع کرنے کے باوجود عید کا چاند نظر آتے ہی ایسی ہلچل مچتی ہے کہ جیسے اس سے پہلے تو ہمیں یاد ہی نہیں تھا کہ عید بھی آنے والی ہے۔
دیکھا جائے تو عید کے دن کا مقصد عید کی نماز، دوستوں اور عزیزوں سے ملنا ملانا، عیدی اور تحائف کے ذریعے محبت بڑھانا، روایتی پکوان اور سیرو تفریح ہے لیکن پھر بھی ہر شخص اس دن کو اپنے طریقے سے ہی مناتا ہے۔ کچھ لوگ نماز پڑھنے کے بعد سو جاتے ہیں اور پھر عید کی شام کو ہلا گلا کرتے ہیں، کچھ لوگ نماز ادا کرتے ہی عزیز رشتے داروں سے ملنے ملانے نکل جاتے ہیں۔
دعوتیں ہوتی ہیں اور ایک ماہ کے روزوں کی کسر ایک ماہ تک خوب کھا پی کر نکالی جاتی ہے۔ ہوٹل اور ریسٹورنٹس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی، غرض پوری قوم کھانے پینے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر عمر کے مسلمان کا تہوار ہے اس دن اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے اس انعام پر سب خوش ہوتے ہیں اس لئے خوشیاں بھی اپنے اپنے طور پر منانا ان کا حق ہے.
بہت پہلے ایک شعر پڑھا تھا کہ:
مزہ بہار کہن کا دکھا ہی جاتی ہے
ہم اہل ہوں یا نہ ہوں عید آہی جاتی ہے
سچ بتاؤں تو آج سے تقریباً سترہ اٹھارہ سال پہلے اسی دوسرے مصرعے کو لے کر اخبار میں مضمون بھی لکھا تھا لیکن اس سال عید کی آمد کے ساتھ ہی نجانے کیوں یہ مصرع ہر وقت دماغ میں گونج رہا ہے اور دل کو تڑپا رہا ہے۔
گیس کے بغیر سحری …بجلی کے بغیر افطار
کوئی بات نہیں عید تو منانی ہے ،کیونکہ یہ ہمارا خوشی کا تہوار ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، قدم قدم پر بھکاری، پریشان حال سفید پوش…
کیا کرسکتے ہیں فطرہ زکوٰۃ دے تو دی ہے ہماری تو عید آگئی ہے اب ہمیں تو قیمتی کپڑے لینے ہی ہیں ہمارا خوشی کا تہوار جو ہے۔
ملک کے وگر گوں حالات۔
ملک چھوڑتے تعلیم یافتہ نوجوان۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دردناک وڈیوز۔
گھاس پھوس کھاتے معصوم بچے۔
ایک گلاس گرم سوپ حاصل کرنے کے لئے ہاتھوں میں برتن پکڑے کچھ دن پہلے تک کے متمول لوگوں کی قطاریں۔
کفن میں لپٹے معصوم وجود،
بغیر بے ہوشی کے آپریٹ ہوتے زندہ زخمی انسان،
بغیر دواؤں کے سسکتے بیمار،
ہم کیا کرسکتے ہیں یہ تو حکومتوں کے کام ہیں،
ہم ایمان کے کمتر درجے پر پہنچے جو ہورہا ہے اسے دل سے برا جان رہے ہیں لیکن اب عید بھی تو آگئی ہے کیا کریں،
سوچا جائے تو واقعی ہم کیا کرسکتے ہیں؟
ہم عید مناسکتے ہیں، کیوں کہ یہ خوشی کا تہوار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے انعام ہے۔
ہر معاملے میں ایمان کے نچلے درجے پر رہنے والے تہوار مناتے وقت تو پکے مسلمان بن سکتے ہیں ناں!!!
ہم نے روزے رکھے تو دھوم دھام سے عید کیوں نہ منائیں۔
میرا خیال ہے کہ منائیں…ضرور منائیں…
کیونکہ ’’ ہم اہل ہوں یا نہ ہوں عید تو آہی جاتی ہے‘‘
بس ذرا سا ان کا بھی خیال کرلیں جو اس وقت بے یارو مددگار ہیں، مشکلات میں ہیں، سخت ترین حالات کا شکار ہیں، مجبور و بےبس ہیں۔
ڈھونڈیے، تلاش کیجئے کوئی تو راستے ہوں گے جن سے ان کی مدد کی جا سکتی ہوگی۔
مسلمان تو وہ بھی ہیں۔ عید تو ان کے لئے بھی آئی ہے۔ راستے تلاش کیے جائیں تو راستے مل بھی جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی عیدوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے جیسی ان مظلوموں کی عید ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنے ملک میں اور گھروں میں ہمیشہ امن و سلامتی کے ساتھ رہنا نصیب فرمائے ( آمین)
سب قارئین کو پیشگی عید مبارک