• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبینہ یوسف

’’عید‘‘ سہ حرفی لفظ اپنے اندر بے پایاں مسرتوں، مروتوں، چاہتوں اور شادمانیوں کے خزانے سمیٹے ہوئے ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے دسویں مہینے ’’شوال‘‘ کی پہلی تاریخ کو منایا جانے والا یہ مذہبی تہوار ، جس کا تمام سال انتظار رہتا ہے۔ روزوں کے بعد جب یہ عیدی کے طور پر وصول ہوتا ہے تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ 

آخری روزے کو کان چاند نظر آنے کے خبروں پر لگے رہتے ہیں۔ چاند رات گویا خوشیوں اور اپنائیت کے در کھلنے کی بے بہا نوید ہے۔ لہراتے رنگین آنچل، چوڑیوں کی کھنک اور ست رنگی قوسِ قزح، مہندی کی مسحور کن خوشبو میں بسے دیدہ زیب گل بوٹے اور ان سے سجی ہتھیلیاں چاند رات کا حسن ہیں۔ 

آج کل عید کا چاند نظرآتے ہی عموماً خواتین بیوٹی پارلرز کا رخ کر تی ہیں جب کہ کچھ عرصہ پہلے مہندی کو دو تین گھنٹوں کے لیے بھگو کر رکھ دیتے تھے، پھر ہاتھوں پیروں پر لگائی جاتی تھی۔ آج کی طرح مہندی کے نقش و نگار نہ ہوتے تھے بلکہ سادہ سی مہندی لگا لی جاتی تھی۔ بڑی بوڑھیاں شیر خورمے یا سویوں کی تیاری میں لگ جاتیں۔ درزیوں کی دکانوں پر دھاوابول دیا جاتا۔ موتیے اور گلاب کے گجرے خریدے جاتے۔ آج کل بازار میں تیار شدہ سویاں ملتی ہیں جبکہ پہلے گھروں میں ہی میدے کو گوندھ کر اس کو بٹ کر موٹی سویاں تیار کی جاتی تھیں۔

اسے ابال کر دیسی شکر اور مکھن ڈال کر کھایا جاتا تھا۔ اب یو ٹیوب کی بدولت میٹھے اور مسالےدار پکوانوں کی بھر مار ہے۔ گھر کے باورچی خانوں کی جگہ اب ریستورانوں نے لے لی ہے۔ ایک وقت تھا جب گھر وں میں دوپٹے رنگنے کا اہتمام ہوتا تھا۔ باروچی خانے میں استعمال ہونے والے بڑے بڑے پتیلے اور کڑھاؤکو قلعی کروا کر ان کو نئی شکل دی جاتی تھی۔ روزگار یا کسی بھی وجہ سے دور رہنے والے لوگ عید اپنے آبائی گھروں میں گزارنے کو ترجیح دیتے تھے۔ سارے ملا ل دھل جاتے تھے۔ آج آپ شہر بھر کے ہوٹلوں اور فوڈ ریستورانوں پر نظر ڈالیں۔ 

عید کے پہلےدن سے لے کر تیسرے دن تک کے لیے کھانوں کی بکنگ ہوجاتی ہے۔ گھر کے کھانوں کا رواج اور مٹھاس اب بہت کم رہ گیا ہے۔ بچپن میں ملنے والی عیدی اکلوتا اور انوکھا بینک بیلنس ہوتی تھی۔ ان پیسوں سے اپنی مرضی کی شاپنگ کی جاتی۔ گلی میں بندر کا تماشا دکھانے والا آتا۔ اونٹ والے بھی اپنے اپنے اونٹوں کو سجا سنوار کر لاتے اور بچے ان کی سواری کرتے۔ رنگ برنگ کے غباروں کی بھرمار ہوتی۔ چار آنے کی قلفی ملائی کھائی جاتی۔ لڑکے بالے اپنی عیدی سے رنگ برنگے لٹو خریدتے ، پھر ان کو چلانے کا مقابلہ ہوتا تھا کہ کس کے لٹو میں زیادہ دم ہے۔ کلائیوں پر گھڑیاں بھی باندھنے کا رواج تھا۔ کم سن لڑکیاں ماتھے پر ’’ٹیکا‘‘لگاتی تھیں۔ 

گہرے رنگوں کی پلاسٹک کی بنی عینکوں کا بھی رواج تھا۔ گڑیا یا بڑھیا کے میٹھے بال بھی عید کے دن گلیوں میں ملا کرتے تھے۔ ایک ٹھیلے پر گول گھومنے والی مشین میں چینی اور رنگ ڈال کر میٹھے بالوں والی گڑیائیں اور گچھے بنا کر ٹھیلے والا فروخت کرتا تھا۔ آج کل یہ چیز ’’کاٹن کینڈی‘‘ کہلاتی ہے۔ ایک اور چیز بھی عید ی کے عوض خریدی جاتی تھی۔ وہ تھی ،لکڑی کے لمبے اور چمکتے ہوئے ڈنڈے کے اوپر چیونگم کی طرح مختلف رنگوں میں بسا، تیز میٹھا قوام منڈھا ہوتا تھا۔ بیچنے والا انگلیوں سے اس قوام کی لٹیں کھینچ کھینچ کر بچوں کو چڑیاں، طوطے، گڑیاں، سائیکلیں اور مختلف کھلونوں کی شکلیں دیتا تھا۔ 

کھٹے میٹھے ذائقوں والے ان کھلونوں کو بچے بڑے شوق سے ہڑپ کر جاتے تھے۔ ایک اور کرتب بھی ان دنوں بہت مشہور ہوا کرتا تھا۔ ایک آدمی سر پر لمبی سی لوہے کی سلاخ اور اس کے سرے یعنی چوٹی پر مٹی کی صراحی رکھے، رقص کرتا ہوا آتا تھا۔ بڑی مہارت سے قدم اٹھاتا کہ صراحی گرنے نہ پاتی۔ سب کی نظریں صراحی پر ہی رہتیں کہ اب گر ی کہ تب گری۔ ایک سادہ سا کھلونا ہوتا تھا۔ اس میں ٹین کی بنی ہوئی ہیلی کاپٹر کے پروں جیسی ایک پھرکی ہوتی تھی جسے بیچ میں سے دہراسوراخ کر کے ایک بل دار تار میں پرو دیا جاتا تھا۔ اس پھرکی کے نیچے ایک چھوٹی سی ٹین کی نلکی لگی ہوتی تھی۔ 

جب نیچے سے انگلیوں پر دباؤ ڈال کر پھرکی کو دھکیلا جاتا تو وہ تیزی سے گھومتی اوپرکی طرف جاتی اور پھر تار میں سے نکل کر اڑتی ہوئی فضا میں بلند ہو جاتی اور دور جا گرتی۔ بچے دوڑتے ہوئے جا کر اس کو اٹھاتے اور پھر تار میں پرو دیتے۔ یوں اڑانوں کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ ہو ا میں اڑنے والے گیس کے غبارے بھی بکتے۔ گیس کے سلنڈر کے اردگرد بچوں کا ہجوم جمع رہتا۔ لڑکے کنچوں سے بھی خوب کھیلتے۔ 

ایک اور روایت جو دم توڑتی جا رہی ہے وہ ہے عید کارڈز کا تبادلہ۔ رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی مختلف ا سٹالز عید کارڈز سے سج جاتے تھے بلکہ پکوڑوں، سموسوں کی دکانوں کے بعد سب سے زیادہ رش عید کارڈز کے اسٹالز پر ہوتا تھا۔ بچے کارٹون، چمپنزی اور شوخ سے پھولوں والے کارڈزخریدتے تھے۔ عشاق حضرات سرخ پھولوں اور خوبصورت اشعار سے آراستہ کارڈز خریدتے۔ عید کارڈز پر لکھے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

سویاں پکی ہیں، سب نے چکھی ہیں

تم کیوں ناراض ہوتے ہو

تمہارے لیے بھی رکھی ہیں


عید آئی ہے زمانے میں

میری دوست گر پڑی غسل خانے میں


ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں کیک

میری دوست ہے لاکھوں میں ایک

اب تمام روایات ایک چھوٹے سے جادوئی ڈبے میں بند ہو چکی ہیں جسے ’’سیل فون ‘‘کہتے ہیں۔ عیدی بچوں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔ ماں، باپ اور بچوں کے الگ الگ عید ڈنرز بک ہوتے ہیں۔ نئی نئی تراکیب سے بنے ولایتی کھانوں کی بھر مار ہے ،جس کی آج کی نسل دیوانی ہے۔ دلوں کی دوریاں اور رشتوں کا کھوکھلا پن عیدکے دن بھی دور نہیں ہوتا۔ 

مشرقی ملبوس کی جگہ (بقول بزرگوں کے) اللہ مارے بے حیائی کے لبادے عام ہو گئے ہیں۔ ممکن ہے آج کل کے بچوں کو اپنا یہ زمانہ اس وقت یاد آئے جب وہ جوانی کی منزل کو پار کر چکے ہوں اور اس زمانے کی عید کی روایات آج سے یکسر مختلف ہوں اور راوی کا قلم روایات کے گم ہونے کا ’’نوحہ‘‘ بڑے دلگداز انداز میں لکھ رہا ہو۔