خیبر پختونخوا کے علاقے بشام میں چند روز پہلے چینی انجینئرز کی گاڑی پر ہونے والے خودکش حملے میں پانچ چینی شہریوںکے مرنے پر جہاں دونوں ممالک کی قیادت اور عوام یکساں طور پر غمزدہ ہیں۔ وہیں پاکستان میں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں بالخصوص چین سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور دیگر افراد کی سیکورٹی کے حوالے سے اندیشوں میں اضافہ ہوا ہے۔ تربیلہ ڈیم کے توسیعی منصوبے، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور دیامیر بھاشا ڈیم پر جو چین کی مختلف کمپنیاں کام میں مصروف تھیں انھوں نے اپنا کام عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کے مطابق صرف داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر تقریباً ساڑھے پانچ سو سے زائد چینی باشندے مختلف خدمات انجام دے رہے تھے۔ اسی طرح دیامیر بھاشا ڈیم پر جاری تعمیراتی سرگرمیاں بھی بند کرکے وہاں کام کرنے والے چار سو سے زائد چینی شہریوں کو واپس چین بھیج دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تربیلہ ڈیم کے پانچویں توسیعی منصوبے پر کام کرنے والی چینی کمپنی نے بھی کام روکنے کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی شہریوں پر گزشتہ چند سال کے دوران تین بڑے حملے ہو چکے ہیں۔ ان میں پہلا حملہ 2021ء میں ہوا تھا جس میں چین کے ماہرین کو لیجانے والی ایک وین پر حملے میں مجموعی طور پر 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے میں نشانہ بننے والوں میں نو چینی شہری شامل تھے۔ اسی طرح 2022 میں کراچی میں ہونے والے ایک حملے میں ایک چینی استاد سمیت تین افراد مارے گئے تھے۔ دہشت گردی کے حالیہ حملے کے بعد سے جہاں پاکستان کے سیکورٹی ادارے تحقیقات کر رہے ہیں وہیں چین کی حکومت نے بھی ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی پاکستان بھجوائی ہے جو دہشت گردی کی اس حالیہ کارروائی کی تحقیقات کرنے کے علاوہ پاکستان میں چین کے شہریوں کو درپیش سیکورٹی سے متعلق خدشات کا جائزہ لے کر اپنی حکومت کو سفارشات پیش کرے گی۔
واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت چین پاکستان میں 62ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے تحت سڑکیں، زراعت، بجلی اور پانی کے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے۔ سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا بھی ایک بہت اہم حصہ ہے۔ ’ون پلس فور‘ کہے جانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار اس کے تحت منصوبے ہیں جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہے۔ یہ منصوبے پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی اور ملکی ترقی کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ حملے کے بعد جن دو بڑے منصوبوں پر کام بند ہوا ہے۔ ان میں سے داسو ہائیڈرو پراجیکٹ کی تکمیل سے پاکستان کو 4320 میگا واٹ اور تربیلہ ڈیم کی توسیع سے مزید 1530میگا واٹ بجلی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ تاہم اب ان منصوبوں پر کام بند ہونے سے سستی بجلی کے جلد حصول کی امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔اس صورتحال میں یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ دہشت گردی کے واقعات براہ راست ملک کے معاشی معاملات پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور اگر بروقت ان کا تدارک نہ کیا گیا تو حالات مزید دگرگوں ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ چین کی حکومت کے تحفظات کو ختم کرنے کے لئے چینی شہریوں کی سیکورٹی کے حوالے سے بھرپور اقدامات کرے تاکہ دونوں ممالک کے اشتراک سے جاری منصوبوں پر دوبارہ جلد از جلد کام شروع ہو سکے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر عموماً تحریک طالبان پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک طالبان اس طرح کی کارروائیاں کر کے جہاں پاکستان کو دباو کا شکار کرنے کی کوشش کرتی ہے وہیں اس طرح کے حملوں سے پاکستان کے اپنے ہمسائیہ ممالک سے تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ کچھ عرصے میں بلوچ شدت پسندوں کی طرف سے بھی عسکری اداروں کے اہلکاروں پر اس نوعیت کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے سیکورٹی صورتحال کے حوالے سے بلوچ شدت پسندی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ بلو چ شدت پسند ایسی کارروائیوں کے لئے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ سی پیک سے ان کے علاقے کی ڈیموگرافی زبردستی تبدیل کر کے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کی کوہستان سے ملنے والے سرحدی علاقوں میں بھی اس منصوبے سے متعلق تحفظات پائےجاتےہیں۔علاوہ ازیں افغانستان میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی جنگ کے باعث دنیا بھر سے یہاں آنے والے جنگجو گروہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ ان کے حوالے سے یہ خدشات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ شاید دہشت گردی کی حالیہ کارروائی کسی ایسے ہی جنگجو گروہ نے کی ہے جو براہ راست کسی فریق کا ساتھ دینے کی بجائے صرف مالی فائدے کے لئے کام کرتاہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی کے حوالے سے صرف چین کے شہری ہی نشانے پر نہیں ہیں بلکہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق مئی 2022 سے اگست 2023 تک دہشت گردی کے 1560 واقعات ہو چکے ہیں۔ ان واقعات میں سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے 593 افسران و اہلکار اور 263عام شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران گزشتہ کچھ عرصے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اسلئے اب وقت آگیا ہے کہ چینی انجینئرز پر حملے کو آخری وارننگ سمجھتے ہوئے ہر طرح کی دہشت گردی اور انتہاپسندی میں ملوث عناصر کا سختی سے قلع قمع کیا جائے۔