اسلام آباد (فاروق اقدس/ جائزہ رپورٹ) سیاسی اور روحانی خانوادے سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کو اب یہ انفرادیت بھی حاصل ہوگئی ہے کہ وہ وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہنے کے بعد اب سینٹ کے چیئرمین بھی بن گئے ہیں اور تینوں مناصب پر فائز ہونے والی وہ پاکستان کی سیاست میں پہلی شخصیت ہیں۔
5مرتبہ رکن قومی اسمبلی بھی رہے , وزیراعظم کی حیثیت میں2012 میں انہیں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کیلئے سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں چند سیکنڈز کی سزا سنائی اور وہ پانچ سال کیلئے نااہل ہوگئے۔
قومی اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں نیب کی جانب سے ستمبر2004 میں ریفرنس کا بھی سامنا کرنا پڑا اور راولپنڈی کی احتساب عدالت نے انہیں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 300 ملازمین کی غیرقانونی بھرتی کے الزام میں10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی تاہم دو سال بعد انہیں رہائی مل گئی، گوکہ سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بلخ شیر مزاری مختصر مدت کیلئے ملک کے نگران وزیراعظم بنے تاہم یوسف رضا گیلانی سرائیکی علاقے سے منتخب ہونے والے ملک کے پہلے وزیراعظم تھے جن کی وزارت عظمیٰ کا دورانیہ سب سے طویل چار سال ایک ماہ اور ایک دن تھا۔
روحانی اور سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی عملی سیاست کا آغاز ملک کے سابق صدر جنرل ضیا الحق کی آمریت میں کیا۔
سنہ 2012 میں سپریم کورٹ نے انھیں اپنے دور کے پانچویں سال میں برطرف کیا تھا۔ انھوں نے اپنی عملی سیاست کا آغاز سنہ 1978 میں انہیں مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا رکن چنا گیا اور سنہ 1982 میں وہ وفاقی کونسل کے رکن بن گئے۔
یوسف رضا گیلانی نے 1983 میں ضلع کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا اور وہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے موجودہ رہنما سید فخر امام کو شکست دے کر چیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہوئے۔
سنہ1985 میں انھوں نے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اور بعد ازاں وزیرِ ریلوے بنائے گئے۔
سنہ1988 میں وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور اسی برس ہونے والے عام انتخابات میں انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے مدمقابل میاں نواز شریف کو شکست دی جو ان انتخابات میں قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر امیدوار تھے۔