اسلام آباد (قاسم عباسی) کیا ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہے؟ یہ آج بہت سے لوگوں کے لیے ایک ارب ڈالر کا سوال ہو سکتا ہے۔
10 اپریل کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق ایران کے پاس اتنا فسائل (انفجاری) مواد ہے جو اگر مزید افزودہ کیا جائے تو کئی جوہری ہتھیاروں کے لیے کافی ہوگا۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اس کے پاس اب انتہائی افزودہ یورینیم کی سپلائی ہے جسے چند دنوں سے لے کر چند ہفتوں تک کے ٹائم فریم میں کم از کم تین بموں کے لیے ہتھیاروں کے درجے کے ایندھن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں کانگریسی ریسرچ سروس (سی آر ایس) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئی اے ای اے کی متعدد رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ایران افزودہ یورینیم کے بیچ تیار کر رہا ہے جس میں بالترتیب 2 فیصد یو 235 تک، 5 فیصد یو 235 تک، 20 فیصد یو 235 تک اور 60 فیصد یو 235 تک شامل ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) ایران کی اعلان کردہ افزودگی کی صلاحیت پر پابندیاں عائد کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ایران کا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 300 کلوگرام یو ایف 6 سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے جس میں 3.67 فیصد یو 235 یو یا دیگر کیمیائی شکلوں میں اس کے مساوی ہو۔
مذکورہ بالا جے سی پی او اے پابندیوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا تاکہ تہران کو ، اپنی اعلان کردہ افزودگی کی سہولیات کا استعمال کرتے ہوئے، کم از کم 10 سال تک، ایک جوہری ہتھیار کے لیے کافی ہتھیاروں کے درجے کی ایچ ای یو تیار کرنے کے لیے کم از کم ایک سال درکار ہو۔
معاہدہ واضح طور پر ایسی ٹائم لائن کا حکم نہیں دیتا۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے معاہدے سے دستبرداری کے متنازع فیصلے کے چھ سال بعد پابندیاں ایک ایک کر کے ختم ہو رہی ہیں، جس سے ایران جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کے ملک کی تاریخ میں کسی بھی وقت سے زیادہ قریب ہے۔
مارچ 2023 میں جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے امریکی چیئرمین مارک ملی نے گواہی دی تھی کہ ایران کو حقیقی جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کئی ماہ درکار ہوں گے۔