• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گریٹر مانچسٹر، لنکاشائر، بلدیاتی انتخابات میں 300 پاکستان نژاد امیدوار بھی میدان میں

گریٹر مانچسٹر، بولٹن (ابرار حسین) گریٹر مانچسٹر اور لنکاشائر میں 2مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے امیدواروں کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ شہر کے تمام علاقوں میں کارنر میٹنگز کے ذریعے پروگرام کی تشہیر کا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ مانچسٹر شہر کی 32 وارڈوں میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور ہر وارڈ کیلئے تین کونسلرز منتخب کئے جاتے ہیں اسی طرح بولٹن ٹائون 20 وارڈز میں تقسیم ہے اور مانچسٹر کی طرح یہاں بھی ہر وارڈ میں تین کونسلرز کو ہی منتخب کیا جاتا ہے جس سے بولٹن کونسل میں منتخب نمائندوں کی تعداد ساٹھ ہوتی ہے۔ مانچسٹر سٹی کونسل میں لیبر پارٹی اور لب ڈیم ہی کونسل کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ ٹوری پارٹی کا سیاسی وجود نہ ہونے کے برابر ہے اس بنا پر اکثر لیبر پارٹی کونسلرز اور رہنما یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس طرح سٹی آف مانچسٹر نیوکلر فری سٹی ہے اسی طرح یہ سٹی ٹوری فری سٹی کونسل ہے مگر موجودہ انتخابات میں ایک نومولود جماعت جس کی قیادت رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے کر رہے ہیں وہ ہے ورکر پارٹی جس میں گریٹر مانچسٹر اور لنکاشائر سے ایشیائی امیدواروں کی ایک بڑی تعداد انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور گریٹر مانچسٹر اور لنکاشائر میں دیگر ایشیائی امیدواروں کے علاوہ 300پاکستان نژاد امیدوار برطانیہ کی سیاسی تاریخ کا حصہ بننے جا رہے ہیں اور ان امیدواروں میں بعض پاکستان نژاد خاتون امیدوار بھی شامل ہیں اور ان جماعتوں کے امیدوار اپنا پیغام ووٹروں تک پہنچانے کیلئے دن کا بیشتر حصہ لوگوں سے ملنے ملانے میں گزارتے ہیں لیکن امسال سب سے بڑا مسئلہ فلسطین ہے اور اس مسئلہ پر ووٹروں کا کہنا ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کا موقف مسئلہ فلسطین کے حق میں نہیں ہے جس سے کمیونٹی واضع طور پر تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے اور ہر پارٹی کا امیدوار اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نظر آتا ہے جس کی بنا پر لیفلٹ تقسیم کرتے وقت لیبر پارٹی مانچسٹر اور بولٹن کے کارکنوں اور رہنمائوں کی ورکر پارٹی کے کارکنوں کے درمیان ہلڑ بازی اور تلخ جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا ہے اور اس کا چرچا سوشل میڈیا پر باقاعدگی کے ساتھ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود انتخابی گہما گہمی جاری رہی اور یہ سرگرمیاں زیادہ تر ان علاقوں میں دیکھنے میں آئیں جہاں ایک سے زیادہ ایشیائی امیدوار میدان میں ہیں جہاں ایشیائیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ علاوہ ازیں پوسٹل ووٹ حاصل کرنے کیلئے سیاسی دائوپیج بھی کھیلے جا رہے ہیں، گریٹر مانچسٹر اور لنکاشائر کے مختلف شہروں بلیک برن ، راچڈیل، بری، اولڈہم، برنلے اور ایکرنگٹن، وارنگٹن، نیلسن اور لیورپول میں بھی سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں اور کئی ایشیائی امیدوار لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکے ہیں۔ مانچسٹر کی لانگ سائٹ وارڈ سے چوہدری شہباز سرور اور بولٹن سے عمر شفیق پہلی بار سیاسی دنگل میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ لانگ سائٹ وارڈ مانچسٹر کی پاکستانی کمیونٹی بلاشبہ ایک محروم اور نظرانداز کمیونٹی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں گزشتہ 35سال سے لیبر پارٹی کا کنٹرول ہونے کے باوجود بے روزگاری تعلیم صحت و صفائی سوشل سروس بچوں خواتین اور عمر رسیدہ بزرگوں کی دیکھ بھال اورخدمت جیسے برے مسائل درپیش ہیں اور ان کے حل کیلئے لیبر پارٹی ناکام نظر آتی ہے جس کے باعث کمیونٹی اب لیبر پارٹی کے بجائے ورکر پارٹی کے امیدوار چوہدری شہباز سرور کی انتخابی مہم میں پیش پیش نظر آتی ہے اور ووٹروں کو اس بات کا یقین ہے کہ ورکر پارٹی کا امیدوار سیاسی معرکہ مارنے میں کامیاب ہو جائے گا جبکہ بولٹن میں عمر شفیق کا مقابلہ ایک انگریز خاتون سے ہے یہاں بھی دونوں امیدواروں کے کارکنوں کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلہ سے گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ ایسی صورتحال میں لیبر پارٹی کوشش کر رہی ہے کہ ان کا مجموعی کنٹرول نہ صرف برقرار رہے بلکہ واضع اکثریت حاصل کرکے اقتدار کی کرسی پر برا جمان رہے ۔ ادھر ٹوری پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس بار اپنی کھوئی ہوئی نشستوں کو نہ صرف حاصل کرلے گی بلکہ 2مئی کا سورج ان کیلئے اقتدار کی نوید لے کر طلوع ہوگا تاہم تینوں بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کے علاوہ گرین اور ورکر پارٹی کے امیدوار بھی اپنے ووٹروں تک پہنچنے کیلئے آخری کوششیں کر رہے ہیں۔ اب کمیونٹی کو دیکھنا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کس امیدوار کیلئے کرے گی اور اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔

یورپ سے سے مزید