مسعود احمد برکاتی
ممتاز ادیب، صحافی، مدیر مسعود احمد برکاتی کو زمانہ طالب علمی ہی میں لکھنے کا شوق ہوگیا تھا۔ 14 سال کی عمر میں اپنے دادا حکیم برکات احمد کے نام پر ”البرکات“ کے نام سے ایک قلمی رسالہ نکالا۔ اردو، فارسی، عربی اور طب کی تعلیم دارالعلوم خلیلیہ میں اور انگریزی تعلیم گھر پر اتالیق سے حاصل کی۔ 16 سال کی عمر میں انجمن ترقی اردو کے رسالے معاشیات میں (1949ء تا 1952ء) سلسلہ مضامین لکھا جس کو بابائے اردو نے بہت سراہا۔ 1952ء سے تادم مرگ ہمدرد وقف اور ہمدرد فاؤنڈیشن سے وابستہ رہے۔1953ء میں بچوں کے مقبول اور کثیر الاشاعت رسالے ”ہمدرد نونہال“ کے مدیر اور پھر مدیر اعلیٰ بنے۔
اردو زبان و ادب کی تاریخ میں کوئی دوسرا ادیب مسلسل 60 برس سے زائد بچوں کے ادب سے وابستہ اور بچوں کے رسالے کا مدیر نہیں رہا۔مسعود احمد برکاتی ملک کے ممتاز میڈیکل جرنلسٹ اور ماہ نامہ ”ہمدرد صحت“ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر رہے۔ مختلف علمی، ادبی اور سماجی اداروں اور انجمنوں کے رکن ہونے کے علاوہ ہمدرد وقف کے ٹرسٹی اور پبلی کیشنز ڈویژن کے سینئر ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا۔
آپ کو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کے علاوہ روسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ بیرون ممالک میں مختلف علمی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت اور صدارت کرچکے ہیں اور مقالات پیش کرچکے ہیں۔ ماہ نامہ ”عرفان“ کراچی اور ماہ نامہ ”سائنسی دنیا“ کی مجلس ادارت میں بھی شامل رہے ہیں۔ یونیسکو کے ماہ نامہ کوریئر کے اردو ایڈیشن ”پیامی“ کے شریک مدیر رہے ہیں۔
ملک کے مختلف اخبارات اور رسائل میں برکاتی صاحب کے جو علمی، تحقیقی، ادبی، صحی، نفسیاتی اور سوانحی مضامین شائع ہوئے ہیں ان کی تعداد یقینا سیکڑوں میں ہے، انہوں نے مختلف کتابیں بھی تحریر کیں جن میں دو مسافر دو ملک (اردو میں بچوں کا پہلا سفر نامہ)، مونٹی کرسٹو کا نواب، ہزاروں خواہشیں، تین بندوقچی (تھری مسکٹیئرس کا ترجمہ)، پیاری سی پہاڑی لڑکی، جوہر قابل(مولانا محمد علی جوہر کی کہانی اور کارنامے)، چور پکڑو، صحت کی الف بے، انکل حکیم محمد سعید، وہ بھی کیا دن تھے، صحت کے نناوے نقطے اور دیگر شامل ہیں۔ بچو! برکاتی صاحب کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آپ کے لیے منتخب کی ہے۔
ایک کسان کے گھر میں ایک چڑیا پلی ہوئی تھی۔ وہ انسانوں کی بولی جانتی تھی اور جو کچھ دیکھتی تھی وہ بیان کردیتی تھی۔ کسان اس کو بہت پسند کرتا تھا اور وہ بھی کسان کے گھر میں بہت خوش تھی۔ ایک بار کسان کا ایک دوست اللہ بخش دوسرے گاؤں سے اس کے ہاں آیا۔ اصل میں اللہ بخش نےاپنے دشمنوں سے ڈر کر کسان کے ہاں پناہ لی تھی۔ کسان نے چڑیا کو سمجھا دیا۔ ”اگر کوئی پوچھے بھی کہ تمہارے ہاں کوئی مہمان آیا ہوا ہے تو اقرار مت کرنا۔“ اللہ بخش کے دشمنوں کو اندازہ تھا کہ وہ کہاں چھپ سکتا ہے، چناں چہ وہ کسان کے گھر پہنچ گئے اور چڑیا نے ان کو بتا دیا کہ، ”اللہ بخش ہمارے ہاں آیا ہوا ہے۔“
اب کیا تھا۔ دشمن گھر میں گھس آئے اور اللہ بخش کو کھینچ کر لے گئے۔ کسان کو چڑیا پر بہت غصہ آیا۔ اس نے چڑیا کو مار کر گھر سے نکال دیا۔ چڑیا ماری ماری پھرتی رہی۔ اس کو بے وفا سمجھ کر کسی انسان نے اپنے گھر میں نہیں رکھا۔ اس پریشانی میں اس کی ملاقات ایک طوطے سے ہوئی۔ طوطا بھی آدمی کی بولی جانتا اور بولتا تھا۔ چڑیا نے کہا کہ انسان بے وفا ہوتا ہے اور اپنی بپتا سنائی اور طوطے کو مشورہ دیا کہ وہ کسی انسان کے گھر میں نہ رہے۔ طوطے نے بڑے اعتماد سے کہا،”زندگی گزارنے کے لئے عقل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں تمہیں اسی کسان کے گھر میں رہ کر بتاؤں گا۔“
طوطا کسان کے گھر پہنچا۔ کسان جواکیلارہ گیا تھا، بہت خوش ہوا اور بڑی چاہت سے طوطے کو اپنے ساتھ رکھ لیا۔ دونوں آرام سے رہنے لگے۔ کسان جو کہتا، طوطا اسے دہراتا لیکن جو کچھ دیکھتا، اسے منہ سے نہیں نکالتا۔ ایک دن طوطے کو چڑیا ملی تو اس نے طوطے سے حال احوال پوچھا۔ طوطا بولا، ”اللہ کا شکر ہے، بڑے آرام سے گزر رہی ہے۔“ چڑیا نے حیرت کا اظہار کیا تو طوطے نے اس کو سمجھایا۔ ”میں زیادہ نہیں بولتا۔
اپنے ساتھی کا بھید نہیں کھولتا۔ جو کچھ میرا مالک کہتا ہے میں وہی کرتا ہوں۔“ چڑیا نے کہا،”ابھی کتنے دن گزرے ہیں۔ ابھی تو تمہاری آؤ بھگت ہو رہی ہے، دیکھنا ایک دن کسان تمہیں نکال باہر کرے گا۔“ طوطے نے چڑیا کو سمجھایا، ”میں اس کو تکلیف نہیں پہنچاؤں گا تو وہ مجھے عمر بھر نہیں نکالے گا۔ میں اس کے خلاف نہیں بولتا۔ ہمدردی کرو گے تو ہمدردی ملے گی۔“
اب چڑیا کی سمجھ میں طوطے کی بات آگئی اور اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ واقعی طوطا اور کسان زندگی بھر ساتھ رہے۔