جمیل احمد
اکبر کے دور میں بیربل کی حکمت و دانائی سے سب واقف تھے۔ دربار میں بہت سے وزیر بیربل سے حسد کرتے تھے، حتیٰ کہ اکبر کا ایک سالا بھی ان میں شامل تھا۔ اس نے اکبر سے درخواست کی کہ بیربل کو اس کی وزارت سے ہٹا کر اس کی جگہ پر مقرر کیا جائے۔
بیربل کو کسی طرح اس بات کی خبر ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ اکبر کوئی فیصلہ کرتا، بیربل نے خود ہی وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔
اکبر نے اپنے نئے وزیر کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا، چنانچہ ایک دن اسے بلایا اور اسے تین سو سِکّے دے کر کہا کہ ان سِکّوں کو اس طرح خرچ کرو کہ سو سِکّے مجھے اِسی زندگی میں مل جائیں، سو سِکّے دوسرے جہاں میں اور سو سکِےّ نہ یہاں نہ اگلے جہاں میں۔
اکبر کے سوالات سن کر نیا وزیر سخت پریشان ہوا۔ اُسے کوئی حل سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اُس نے رات آنکھوں میں کاٹی۔ اُسے مایوس دیکھ کر اس کی بیوی نے اُسے بیربل کے پاس جانے کا مشورہ دیا، چنانچہ بادِلِ ناخواستہ وہ مدد کے لیے بیربل کے پاس گیا۔
بیربل نے اُس کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ تم سِکّے مجھے دے دو، باقی کام میں سنبھال لوں گا۔
اگلے دن بیربل وہ سِکّے لے کر نکلا۔ راستے میں اُس نے دیکھا کہ ایک امیر سوداگر اپنے بیٹے کی شادی کا جشن منا رہا ہے، بیربل اُس کے پاس گیا اور اُسے سونے کے ایک سو سِکّے دیتے ہوئے ادب سے جھک کر کہا، “شہنشاہ اکبر نے آپ کے بیٹے کی شادی کے لیے آپ کو اپنی نیک تمنائیں اور دعائیں بھیجی ہیں۔ آپ شہنشاہ کی طرف سے بھیجا گیا تحفہ قبول فرمائیں۔
سوداگر شہنشاہ کا تحفہ پا کر خوشی سے پھولے نہیں سمایا۔ اس نے بیربل کی خُوب عزّت افزائی کی، جواباً شہنشاہ کے لیے بہت سے قیمتی تحفے بھیجے، پھر بیربل غریب لوگوں کی بستی میں گیا۔ اس نے سو سِکّوں سے کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء خریدیں اور شہنشاہ کے نام پر غریبوں میں تقسیم کیا۔ اب ایک سو سِکّے باقی بچے تھے۔ بیربل نے یہ سِکّے رقص و موسیقی کی ایک محفل پر خرچ کر دیے۔
اگلے دن بیربل اکبر کے دربار میں داخل ہوا۔ اُس نے حسبِ روایت بادشاہ کو آداب بجا لانے کے بعد کہا، اگر اجازت ہو تو آپ کو سونے کے تین سو سِکّوں کی کہانی سناؤں؟ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ بیربل سونے کے سِکّے تم تک کیسے پہنچ گئے، یہ تو میں نے اپنے نئے وزیر اور ملکہ کے بھائی کو دی تھیں؟
بیربل نے آداب بجا لاتے ہوئے کہا، ”حضور وہ یہ سکوں کی تھیلیاں میرے حوالے کر گئے تھے کہ انہیں اس طرح استعمال میں لاؤں جس سے بادشاہ کو ان کے تینوں سوالوں کےمناسب جواب مل جائیں۔‘‘
پھر بیربل نے باشاہ کو بتایا کہ، ’’میں نے سوداگر کو اس کے بیٹے کی شادی کے لیے جو رقم دی تھی وہ آپ کو اسی جہان میں واپس مل گئی ہے، جو رقم میں نے غریبوں کے کھانے اور کپڑے خریدنے پر خرچ کی ہے، اس کا بدلہ آپ کو دوسرے جہان میں ملے گا، اور جو پیسے میں نے رقص و موسیقی کی محفل پر خرچ کیے وہ رقم آپ کو یہاں ملے گی نہ دوسرے جہاں میں۔‘‘
نیا وزیر یہ سب سن رہا تھا،اُسے اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا تھا، اُس نے فوری بیربل کو اُس کی جگہ پر واپس مقرر کرنے کے لیے استعفیٰ دے دیا۔