• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یمنیٰ اعوان

چوہے، چوہیا کا بیاہ تھا ، چوہیا کےگھر سے شادی کا جوڑا ریشم کا کرتا، پاجاما، چکن اور جوتیاں چوہے کے گھر بھیجا گیا۔ چوہے میاں شادی کا جوڑا دیکھ کر نہال ہوگئے مونچھیں پھڑکا پھڑکا کر کہنے لگے،’’افوہ! یہ جوڑا پہن کر جب نوشا بنوں گاتو سارے نگر میں میری آن بان کا چرچا ہوگا‘‘۔

ادھر چوہے کی نانی، دادی دلہن کے ہاں شادی کے جوڑے لے کر پہنچیں تو دلہن کی سہیلیاں اور گھر کی بڑی بوڑھیاں ایک ایک جوڑے کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ کوئی تعریف کر رہا تھا، تو کوئی باتیں بنا رہا تھا۔ چوہیا کی ایک سہیلی منہ بنا کر بولی، کسی جوڑے پر گوٹا کناری ہی لگا دیتے۔‘‘

یہ بات چوہیا (دلہن) کے دل پر تیر کی طرح لگی۔ وہ ایک طرف چپ چاپ بیٹھی تھی، مگر اب ضبط نہ کر سکی۔ گھونگھٹ الٹ کر بولی،

’’چولہے میں جھونک دو ان جوڑوں کو میں تو نہیں پہنوں گی ایسے سادہ کپڑے۔‘‘

چوہے کی نانی، دادی گھبرا کر بولیں"بی بی! کیا کریں؟ کسی دکان پر گوٹا کناری ملا ہی نہیں، سارا بازار چھان مارا۔‘‘

یہ سن کر دلہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سسکیاں بھرتے ہوئے بولی،"ارے، ساتھ ہی کے گھر میں ننّھی کی بقچی جا کر دیکھتے تو تھان کے تھان گوٹا کناری کے مل جاتے۔‘‘

یہ سن کردادی ، نانی کا دل بیٹھ گیا، فوراً دم دبا کر نوشا کے ہاں پہنچی اور سارا حال سنایا۔ نوشا نے سر ہلایا اور کہا، فکر نہ کرو ، میں آج رات ہی نکلوں گا گوٹا کناری کی تلاش میں۔‘‘

رات کے وقت (دولہا) میاں چپکے سے گھر سے باہر نکلےاور اُس گلی کی طرف روانہ ہو گئے جہاں ننّھی بی کا گھر تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ننھی بی کے کمرے کی تلاشی لی، مگر کچھنہ ملا۔

پریشانی کی حالت میں دیر تک اِدھر اُدھر ٹہلتے رہے۔ اچانک ایک نرم نرم سی چیز پر پاؤں پڑا، ۔ٹٹول کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ننّھی بی کی چنری ہے، جس پر خوب گوٹا کناری لگا ہوا ہے، سوچا، کیوں نہ یہیں بیٹھ کر گوٹا الگ کر لوں؟

اسی وقت چنری کو پنجوں میں پکڑا اور دانتوں سے ’’کٹ کٹ ‘‘کر کے گوٹا الگ کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی گوٹا الگ ہوگیا نوشا میاں گوٹے کو لپیٹ کر ایک تھان سا بنایا اور اسے پنجوں میں دبا کر گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔

دروازے پر پہنچے تو بڑی دقّت پیش آئی۔ گوٹے کا تھان بڑا تھا اور دروازہ چھوٹا۔بہت زور لگایا کہ کسی طرح اندر لے جائیں، مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ کبھی اپنی طرف کھینچا، کبھی اندر کی طرف دھکا دیا۔ پسینے پسینے ہوگئے، سانس پھول گئی، مگر نہ گوٹے کا تھان گھر کے اندر نہ جا سکا۔

صبح ہو گئی۔ مرغ اذانیں دینے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر چوہے( دولہا) کا دماغ پھر گیا۔ پاگلوں کی طرح کبھی دیوار کے ساتھ ساتھ اِدھر اُدھر بھاگتے، پھر واپس آتے اور تھان سے لپٹ جاتے۔ روشنی پھیلی تو کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک عورت اندر داخل ہوئی۔

چوہے نے جب اُس کی صورت دیکھی، تو رہے سہے ہوش بھی جاتے رہے۔چیختے چلاتے ایک طرف کو بھاگے۔

ادھر عورت کی نظر جب چوہے پر پڑی، تو اُس نے غل مچا دیا,’’ہے ہے چوہا ہے ہے چوہا! یہ کتنا بڑا چوہا ہے۔‘‘

دُولہا کی بارات تیار ہو چکی تھی۔ تمام برادری جگمگاتے کپڑے پہن کر موجود تھی۔ دُولہا کی سواری کے لیے ایک مینڈک تھا، جھینگر کا بینڈ باجا بھی تیار، بس چلنے کے لیے صرف دُولہے کا انتظار تھا۔

ادھر اُدھر ہر طرف چوہے دوڑائے گئے، لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ شادی والے گھر میں کہرام مچ گیا۔ یہ خبر دُلہن کے ہاں پہنچی تو وہاں بھی رونا پیٹنا شروع ہو گیا۔یہ بات سن کر چوہیا دُلہن کو خیال آیا کہ میرا دُولہا گوٹا کناری کی تلاش میں تو نہیں نکل گیا، ننھی بی کے ہاں تو نہیں چلا گیا، کہیں کسی مسئلے میں تو نہیں پڑ گیا؟

یہ خیال آنا تھا کہ چوہیا دُلہن نے نہ کسی سے کچھ کہا، نہ سُنا، گھر کا پچھلا دروازہ کھولا اور اُس گلی کی طرف روانہ ہو گئی جو ننھی بی کے گھر کو جاتی تھی۔

دروازے پر پہنچی تو کیا دیکھتی ہے کہ دروازہ بند ہے! اور بند بھی کسی معمولی چیز سے نہیں، بلکہ گوٹا کناری کے تھان سے۔

چوہی نے تھان کو سرکانے کی کوشش کی ہی تھی کہ اتنے میں گھر کے اندر سے لوگوں کی آوازیں آنے لگیں۔

ایک کہہ رہا تھا،’’واہ! چوہے کی ایسی جُرأت؟ دکھاؤ کہاں ہے، ابھی کام تمام کیے دیتا ہوں۔‘‘

ایک عورت نے کہا،’’ الماری کے پیچھے گیا تھا، وہیں دیکھو۔‘‘

الماری تھی بھاری، بڑی مشکل سے ذرا سی سرکائی۔

چوہے میاں، چلچل ( چوہے کی آواز) کرتے الماری کے نیچے سے نکلے

اندر چوہے کی دلہن نے یہ آواز پہچان لی گوٹے کےتھان کو تین چار دھکے لگائے، تھان دروازے سے باہرآ گیا۔

چوہے دولہا لپک کر بل میں داخل ہوگئے اور بال بال بچے۔

اتنے میں ننھی بی کی آواز آئی ،’’امّاں بی ،دیکھنا، میری چنری کا گوٹا کناری یہ پڑا ہے۔‘‘

یہ سن کر چوہے کی دلہن بولی ،’’چولہے میں گیا گوٹا کناری، مجھے تو اپنا چوہا دولہاچاہیے۔

اگلے روز بڑی دھوم دھام سے چوہے، چوہیا کی شادی ہو گئی۔ شادی کے روز چوہے کا بھیجا ہوا سادہ جوڑا بھی سب کو بھڑک دار نظر آنے لگا۔