• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا غالب باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے ۔ان کے پرستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ واحد اردو شاعر ہیں جن پر کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ اوروہ واحد اردو شاعر ہیں جن کے کلام کی بیسیوں شرح لکھی جاچکی ہیں ۔ اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس کے کلام کی ضخامت دیوان غالب سے کم ہو۔ ہمارے کلچر میں چاند حسن کا استعارہ ہے، عاشق اپنی محبوبہ کو اور مائیں اپنے بچے کو چاند کہتی ہیں۔ جس طرح چاند کا صرف ایک رخ ہم اہل زمین کے سامنے رہتا ہے دوسرا رخ سامنے نہیں آتا، اسی طرح غالب کا صرف ایک رخ ہمارے سامنے ہے دوسرا رخ کم ہی سامنے آتا ہے، میری مراد ان کی فارسی شاعری سے ہے۔

پرستاران غالب کی انتہائی خواہش ہوتی ہے کہ وہ غالب سے ملیں، انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔علامہ اقبال اپنی نوجوانی میں مرزا غالب کی قبر پر گئے اور خراج عقیدت کے طور پر ایک بے مثال نظم لکھی جو بانگ درا کی چوتھی نظم ہے۔ اس نظم کے چند ا شعار ملاحظہ کریں۔

نطق کو سوناز ہیں تیرے لب اعجاز پر

محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر

شاید مضمون تصدق ہے تیرے انداز پر

خندہ زن ہے غنچہ ولی گل شیراز پر

آہ تواجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے

گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے

اردو کے منفرد ادیب شمس الرحمن فاروقی نے غالب سے ایک تصوراتی ملاقات کی ،اسے پڑھ کر لگتا ہے کہ ہم خود غالب سے مل رہے ہیں۔ آئیے پڑھتے ہیں فاروقی صاحب کا تصوراتی افسانہ۔

میرا نام بینی مادھو سنگھ ہے، ہم لوگ نسلاً راجپوت ہیں اور ضلع اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں ۔باپ دادا بڑے خوشحال تھے، مگر 1857ء کی بغاوت میں ہمارا خاندان برباد ہوگیا۔ بہت سے لوگ مارے گئے، ہماری حویلی کھنڈر ہوگئی، میں نے کئی برس چھپ چھپا کر گزارے، والدہ نے کنوئیں میں کود کر جان دے دی، مجھ پر عرصہ زمین اور عرصہ حیات دونوں تنگ ہوگئے۔مجھے بچپن سے شاعری کا شوق ہوگیا تھا۔ ایک بڑے استاد کا شاگرد ہوگیا۔ مئی 1962ء کی بات ہے کہ ایک دن بازار سے گزرتے وقت میں نے مرزا غالب کے دیوان کا ا یک نسخہ خرید لیا۔ 

اس دن سے دیوان غالب کا وہ نسخہ میرا ہم دم و ہم ساز بن گیا، پھر میرے دل میں مرزا صاحب سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔ نومبر 1962ء میں بسبیل ڈاک دلی روانہ ہوگیا اور بیس دن کے سفر کے بعد دلی پہنچ گیا ۔ رات ایک سرائے میں بسر کی، صبح بھٹیارن سے مرزا غالب کا پتہ دریافت کیا ، اس نے کہا، میاں صاحب ابھی شہر کی سیرکرو شام کے وقت ہم مل کر چلے جائیں گے۔ شام سے ذرا پہلے میں نے لباس تبدیل کیا، سر پر ٹوپی جمائی اس پر رنگین مفلرکانوں میں موتی کے بالے ڈالے، ریشمی دھوتی باندھی، جودھپوری جوتیاں پہنیں، گھر سے مرزا صاحب قبلہ کے لئے دو ریشمی لنگیاں اور دو پگڑیاں بطور خاص بنوالایا تھا اور پچیس جلدیں دیوان غالب کی۔ 

مثالچی کو آگے کیا ،خود گھوڑے پر سوار ہو کر چلا۔ اس وقت تک شام اچھی طرح پھول چکی تھی۔ راستے میں جامع مسجد آئی وہاں بے فکروں کا مجمع ویسے ہی تھا ۔ بیسوں حویلیاں ڈھئی پڑی تھیں، میں نے دل میں کہا ،اللہ کرے کبھی دلی کے دن بھی پھریں۔راستہ ڈھونڈنے اور ٹھوکریں کھانے میں دو گھنٹے لگ گئے، بارے مرزا صاحب کی حویلی نظر آئی،اطلاع کروائی، فوراً ہی بلالیا گیا۔ کچھ حضرات پہلے سے موجود تھے۔ ہائے میں مرزا صاحب کی شکل کیا بیان کروں…کشیدہ قامت، متوسط بدن، لیکن ہاڑبہت چکلا، سنہرا چمپئی رنگ، اس پر سفید داڑھی، مسکراتا ہوا روشن چہرہ، آنکھیں بڑی بڑی لیکن سرور کی وجہ سے سرخی مائل، آنکھوں میں شوخی اور فراست کی چمک، لگتا تھا کوئی آغائے تورانی ہیں، آواز ان کی نہایت صاف اور کھلی ہوئ تھی۔ کیا شفقت تھی۔

انہوں نے لب فرش تک آکر میرا استقبال کیا (اس وقت مرزا صاحب کی عمر 65؍ برس تھی)مرزا صاحب کے دست راست پر جو صاحب بیٹھے تھے، لباس ان کا مغل منصب داروں کی طرز کا تھا۔ انتہائی خوبصورت اور وجیہہ انسان تھے، معلوم ہوا، نواب ضیاء الدین خان نیر ہیں۔ انہوں نے مسکرا کر سلام لیا اور دعادی۔ جو صاحب مرزا کے سامنے بیٹھے تھے داڑھی مونچھیں گھنی، کنگھی کی مشاطکی سے آزاد، بدن پر انگریزی وضع کا کوٹ، معلوم ہوا مر زا صاحب کے خاص شاگرد منشی شیونرائن ہیں ۔انہوں نے بھی اسی طرح دعا دی۔مرزا صاحب نے فرمایا، میاں خانہ بے تکلف ہے بتائو کچھ شغل بھی رکھتےہو۔ میں نے دبی زبان سے جواب دیا، حضور راجپوت ہوں ، برت بھی دو آتشہ تاب سے کھولتا ہوں… مرزا صاحب نے کلو داروغہ کو آواز دے کر گلاس اور بوتل منگوائی پھر غایت سفر پوچھی۔ 

میں نے مختصراً عرض کی ، سب سے پہلے تو وہ لنگیاں اور پگڑیاں نذر کیں جو ان کے لئے ساتھ لایا تھا، میری خوش نصیبی تھی کہ پگڑیاں ان کی پسند کے مطابق نکلیں۔نواب ضیاء الدین اور منشی صاحب تو رخصت ہوئے ۔میں مرزا صاحب قبلہ کےساتھ شغل کرتا رہا۔ کوئ انگریزی شراب تھی، بے رنگ مگر بہت تیز، رات جب بہت بھیگ گئی تو میں نے اجازت چاہی فرمایا،دیر ہوتی ہے آپ جائو لیکن کل دوپہر کو آئو اور کھانا یہیں کھائو۔اگلی صبح بارہ بجے میں تنہا ہی سوار ہوکر بلی ماروں کو چلا۔ مرزا صاحب کمال شفقت سے منتظر تھے، میرے جاتے ہی کھانا لگا، کھانے کے بعد پیر و مرشد نے انگنائی میں اپنا پلنگ بچھوایا۔ 

بھنڈا (حقہ) تازہ کیا ، مرزا صاحب اپنا بیجوان کبھی کبھی مجھے نوش فرماتے، جب بھنڈے کا لطف لے چکے تو، مرزا صاحب نے فرمایا ’’ہاں صاحب اب کہو اب تخلیہ ہے‘‘ میں نے کتابوں کی گٹھڑی کھولی توانہوں نے کہا، یہ تو میرا ہی دیوان ہے، میں اسے لے کر کیا کروں گا۔ میں نے عرض کیا ،ملتمس ہوں حضور ان مجلدات کواپنے دسخط سے مزین فرمادیں ۔ میں انہیں نذر دوستاں کردوں گا۔ اس سے بہتر تحفہ کیا ہوگا۔ انگریزوں کے یہاں یہ طریقہ مصنف کی قدر شناسی کا ہے۔ مرزا صاحب ہنسے اور فرمایا، ہمارے ہاں مصنف کو سارت پارچے کا خلعت پہناتے ہیں۔ خیر لائو تم کہتے ہو تو اپنی مہر کئے دیتا ہوں، یہ کہہ کر انہوں نے داروغہ سے قلمدان منگوایا، ہر کتاب پر اپنے دست مبارک سے مہر کی، پھر ایک کتاب پر لکھا:

برخوردار بینی مادھوسنگھ رسوا

اسداللہ خان غالب…نگاشتہ 14 رجب المرجب 1297ھ کتاب میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے ’’اب تو خوش ہو‘‘ میں نے سروقد ہو کر کتاب ان سے لی، آنکھوں سے لگائی، ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اجازت چاہی۔ فرمایا، کوئی بات نہیں ذرا دیر اور بیٹھو، مجھے تمہارا لہجہ اچھا لگتا ہے۔ میں بیٹھ گیا اور عرض کی، پیرو مرشد جان کی امان پائوں۔ ایک بار انہوں نے غور سے دیکھا اور فرمایا کہو کیا بات ہے۔

میں نے بھی کڑا کر کہا ، حضور کی رائے ہندوستانی فارسی گویوں کے مطعلق اچھی نہیں ہے لیکن آنجناب تو خود بھی ہندوستانی ہیں۔ان کا چہرہ تھوڑا سا سرخ ہوگیا لیکن پھر بھی انہوں ے نرمی سے فرمایا ’’فارسی زبان کے رموز و غوارض میری روح میں یوں پیوست ہیں جیسے فولاد میں جواہر، یا رگ گل میں باد سحر گاہی کا نم، میں کہاں اور ہندوستان کے فارسی گو کہاں۔ لیکن حضور اور بھی تو ہندی شعراء ہیں جیسے امیر خسرو،ملا فیضی۔اب ان کے لہجہ میں ذرا گرمی آگئی۔ فرمایا، اہل ہند میں سوائے امیر خسرو کے کوئی مسلم الثبوت نہیں۔ غنی، منیر اور فیضی اچھے شاعر ہیں لیکن زبان سے انہیں کیا علاقہ۔

میں نے کہا ، حضور ایک زمانے میں تو مرزا بیدل کے بڑے مداح تھے۔ حضرت میری بات کاٹ کر بولے، مداح نواب کا بھی ہوں لیکن ان کی زبان کانہیں ،ان لوگوں کی فارسی کیا ۔ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ میں نے رکتے رکتے عرض کی،ڈرتا ہوں کہیں آپ کے ساتھ بھی زمانہ یہ سلوک نہ کرے، یا تو لیٹے ہوئے تھے یا اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا،یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ طبع میری سلیم ہے اور ذوق مرا دوست۔میرے مضامین لوگ رہتی دنیا تک پڑھتے اور سمجھتے رہیں گے۔

خدا کی قسم، وہ وقت اور وہ ماحول، وہ ان کے چہرے پر بادشاہوں کاجلال،مضمون کی وہ ندرت اور کلام کا وہ زور، میں پھڑک ہی گیا فرمایا، دیکھیو میری بات اور ہے مجھے اس زبان سے ازلی اور ذہنی مناسبت ہےاور یہ کہ اہل زبان کے معاملات اہل زبان ی سمجھ سکتے ہیں،پھر ٹھنڈی سانس لی اور بولے، آخر راجپوت بچے ہو تمہاری ضد کا میرے پاس کوئی علاج نہیں۔

میں سر سے پائوں تک لرز اٹھا ۔ میں نے ان کے پائوں پکڑ لئے اور سر جھکا کر کہا یہ تمنچہ (خنجر) حاضر ہے اسے میرے سینہ میں اتار دیجئے لیکن خفا نہ ہوئیے۔ گئی رات تک محفل رہی پھر مرزا صاحب نے آبدیدہ ہو کر مجھے رخصت کیا ، صدر دروازے تک چھوڑنے آئے پھر آنے اور خط لکھنے کی تاکید کی… افسوس اس کے بعد میں کبھی بھی دلی نہ جاسکا۔

ایک دن فروری 1869ء کی کوئی تاریخ تھی کہ ،میں نے اودھ اخبار میں پڑھا کہ بلبل ہند، نجم الدولہ، دبیرالملک، مرزا اسد اللہ خاں غالب خالق حقیقی سے جاملے…میں نے آہ سرد بھری اور چپ ہوگیا۔ مرزا کا نام ان کے بعد اور بھی چمکا بہت سے صاحبان علم نے ان کے کلام کی شرحیں لکھیں ان میں حالی، نظم طباطبائی شامل ہیں۔ عبدالرحمن بجنوری صحابین غالب نامی کتاب لکھی اور ثابت کیا ہمارے مرزا صاحب کا مرتبہ کسی شاعر سے کم نہیں۔