• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زین العابدین

کہنے کو تو نوجوان پاکستان کی کل آبادی کےتقریباً ساٹھ فیصد سے زیادہ پر مشتمل ہیں، جن میں طالبعلم اور محنت مزدوری کرنے والے دونوں نوجوان شامل ہیں، ان کے عمومی حالات کیا ہیں؟ یہ کیا سوچتے ہیں؟ کن مسائل کا شکار ہیں؟ اس پر بہت کم سننے کو ملتا۔ طرح طرح کی خبریں روزانہ اخبارات اور میڈیا چینلوں کی زینت بنتی ہیں۔ کبھی سیاستدانوں کی کرپشن کا شور ہوتا ہے تو کبھی نئی سیاسی پارٹیاں بننے کی خبریں آتی ہیں۔ کبھی حکمرانوں کی جانب سے ایک رات میں ملک کے مسائل ختم کر دینے کی نوید سنائی جاتی ہے۔

نوجوان نسل جو ان تماشوں کو دیکھتی، سمجھتی ہے ،شدید بیزار نظر آتی ہے۔ہمارے کی ملک کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نوجوانوں کی اکثریت کس طبقے سے تعلق رکھتی ہوگی۔ سماج میں موجود ان گنت مسائل ان نوجوانوں پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ دن بدن بڑھتی مہنگائی، فیسوں میں اضافہ، سیاسی ومعاشی بحران، اخلاقی گراوٹ اور ایسے بے شمار مسائل ان کی زندگیوں کو تلخ کرتے جا رہے ہیں۔ آج عالمی سطح پر ہنگامہ خیز تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں جن کا تصور بھی کچھ عرصےپہلے تک محال تھا۔ تعلیمی اداروں کی لوٹ مار کا عمل زوروشور سے جاری ہے۔ تعلیم بھی برائے فروخت ہوتی جارہی ہے، جس کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں، وہ مہنگے اسکولوں سے لے کر کوچنگ سینٹرتک پر لٹاتے ہیں۔ حکمران بیانات اور دعوے تو بہت کرتے ہیں کہ تعلیم سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے، تعلیم ہی ترقی وخوشحالی کا ذریعہ ہے لیکن عملی طورپر کچھ کرنے کوتیار دکھائی نہیں دیتے۔ 

اگر حکومت علم کی شمع جلانے اور جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے میں مخلص ہوتی تو تھر، سندھ اور پاکستان کے دیگر دیہات میں اسکولز باڑے کی شکل نہ بنے ہوتے۔ دراصل یہ عوام کو شعور دینا ہی نہیں چاہتے ۔ آج کا تعلیم یافتہ نوجوان کام کرنے کے لئے تیار ہے لیکن ہمارا نظام اس طبقے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل نہیں ہے ۔ نہ جانےنوجوانوں کو مواقع کب ملیں گے، کب انہیں ملک کو مستحکم و پائیدار بنانے کے قابل سمجھا جائے گا۔ 

معاشرے میں جرائم، خودکشیاں، منشیات کا استعمال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صورتحال کیا ہے۔وہ پڑھ لکھ کر بھی معمولی معمولی نوکریں کے لیے اپلائی کرتے ہیں، پھر بھی نوکری نہیں ملتی۔ بہتر یہی ہوگا کہ تعلیمی اداروں میں طلبا یوینز کو دوبارہ فعال کیا جائے۔جب تک اس ملک میں نوجوانوں کو یہ آزادی میسر رہی کہ وہ بطور شہری سیاسی طور پہ اپنا کردار ادا کر سکیں تب تک معاشرے میں شدت پسندی کے اثرات بھی کم نظر آتے تھے۔ اب ان کے اندر جمود اور فرسٹریشن کا غلبہ ہوگیا ہے۔ کرئیر کونسلنگ کہیں نظر نہیں آتی۔

پاکستان میں کی جانے والی سب سے اہم سرمایہ کاری وہی ہے، جو نوجوانوں کے لیے بہتر ہو۔ یہ تین قسم کی ہو سکتی ہے۔ تعلیم، ملازمت اور مثبت سرگرمیوں کا فروغ ۔ یہ اقدامات جو نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم کی بیخ کنی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق سب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار نوجوان ہیں، اب نوجوانوں کو اپنا حقلینے کے لیےبولنا پڑے گا، لڑنا پڑے گا، آواز بلند کرنی پڑے گی۔

اس مملکت خدادا کے حصول کی جدجہد میں نوجوان ہی تھے جو قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کے دست و بازو بنے تھے، آج اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی نسل نوِ اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ کسی بھی ملک کے نوجوان اپنے ملک و قوم کی شناخت ہوتے ہیں۔ اپنے بزرگوں کی امید ہوتے ہیں۔ آنے والی نسل کے لئے ایک مثالی نمونہ۔ وقت کا تقاضاہے کہ نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کریں، اپنے بہتر مستقبل کے لیے اپنی جگہ خود بنائیں۔