حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن ہمیں دنیا سے کیا حاصل شہادت ہے مشن اپنا پہاڑوں میں دفن ہوں گے برف ہوگی کفن اپنا وہ بھی تو آزربائیجان کے دشوارگزار پہاڑی علاقے میں جیسےروپوش سے ہوگئے۔ وہ بہادر سا انسان اپنا مشن اپنے ساتھ لے گیا مگر وہ بہادری سے نام نہاد طاقتوروں کو اپنے بیانیئے اور جوش کی گرج سے سمجھا دیا کرتا تھا کہ وہ کسی بھول میں مت رہیں ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔کہا تو یہ جا رہا ہے کہ حادثہ شدید دھند اور خراب موسم کی وجہ سے پیش آیا۔ حالات تو ویسے ہی خراب تھے، گولہ بارود اور بموں سےفضا میں شدید قسم کی ہلچل تھی۔ ممکن ہی تھا ایسے میں ایک نہایت اہم شخصیت کا دنیا سے جاناکہ وہ شخص اپنی شہادت کے مقامکو پا گیا۔ بظاہر وہ پہاڑی میں روپوش ہوکر جا سویا مگر کافی سے زیادہ دنیاکو سوگوارکر گیا۔ وہ جاکہتا تھا کہ ایرانیوںکے دل ہمیشہ پاکستانیوں کیساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام بھی ایران سے نہایت عقیدت رکھتے ہیں بلکہ ایران کی خود اعتمادی اور جرات دیکھ کر پاکستانی بھی دیدہ دلیری کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ذہنی اور جذباتی طور پر ایران کیساتھ ہر معاملات میں کھڑے ملتے ہیں اور دلی طور پران سے عقیدت و احترام کا رشتہ رکھتے ہیں اسی لئے ایران کی جانب سے آئی کسی بھی بری خبر پر ہم سوگ میں ڈوب جاتے ہیں کیونکہ ایران ہمارا خیر خواہ بھی ہے، ان کے بیانیئے کافی توجہ حاصل کرتے تھے انہوں نے کہا تھا کہ اگردونوں ممالک کے درمیان نیوکلیئر ڈیل پر رضامندی ہو بھی جائے تو بھی وہ امریکی صدر سے بات کرنا پسند نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے ایک اور بات بھی کہی تھی کہ ہم تمام دنیا کے ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں مگر اسرائیل سے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے۔ ابراہیم رئیسی فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے بہت مضبوط سپورٹر تھے۔ابراہیم رئیسی نے اپنے دورہ پاکستان کا انتخاب ان دنوں میں کیا جب اسرائیل اور فلسطینی جنگ اپنے عروج پر تھی بلکہ ایران کے خود تعلقات اسرائیل سے کشیدگی کی طرف جارہے ہیں پھر ایک دوسرے پر حملے بھی ہو رہے ہیں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ہم صیہونی ریاست کے خلاف ڈٹے رہیں گے اور فلسطین کی آزادی ہماری پہلی ترجیح میں شامل ہے۔ مگر افسوس کہ ایسے جری اور بہادر شخص کسی نا کسی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔نیک جذبات اور مسلم امہ کیلئے خیرسگالی کے کے وزیراعظم سائمن ہیرس کو پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی بھی دعوت دی۔ مقاصد رکھنے والے اگر کوئی نیک کام کرتے دنیا سے چلے جائیں جیسے طبعی موت یا حادثاتی موت کاشکار ہو جائیں تو وہ پھر بھی شہید ہی کہلاتے ہیں۔ابراہیم رئیسی کو کسی بھی مسلم ملک سے کوئی اسلحہ یا معاشی مدد یا کسی بھی قسم کا کوئی لالچ نہیں تھا وہ سبھی کچھ مخلصانہ اور بھائی چارے کی بنا پرکرتے رہے ۔ جو لوگ خدا کی راہ میں اپنے گھر سے نکلیں اور دوران سفر میں اسکی موت ہو جاتی ہے تو اس کا اجر طے ہوتا ہے اللہ کے یہاں! شہید روشنی یہ کہہ گئی ہے لشکر سے الائو درد کا رو رو کے یوں بجھائے نہیں ابراہیم رئیسی صدر مملکت ہونے کے باوجود عام اور سادہ فکر و خیال کے مالک تھے، عابد و صالح باعمل شخصیت تھے۔ سفر میں بھی واجبات کا خیال رکھتے تھے۔ صرف ضروریات تک کے پابند تھے جو کہ قابل تعریف عمل ہے۔ آپ سادہ لوح زندگی کے قائل تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس اختیارات تھے کہ آپ جو چاہے اور جیسے چاہے زندگی گزار سکتےتھے مگر آپ نے ایسی شاہانہ زندگی کو خاطر میں نہیں رکھا۔ بطور مملکت کے کاموں میں خود کو جوابدہ اور ذمہ دار جانا۔ انہوں نے دوران حکومت کافی بنیادی اقدام کئے جن میں پہلا کام حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ آسان کیا اور سرکاری افسران کو دیہات تک کے لوگوں کی معلومات رکھنے کی ہدایت کی تو اس سے عوام اور حکومت کے درمیان روابط میں مضبوطی آئی۔ دوسرا یہ کہ حکومت کا نظام بہتر بنانے کو بنیادی کام کئے۔ غیرقانونی طریقہ سے ملک کی جو چیزیں باہر جاتی تھیں ان پر پابندی لگائی، اقتصادی معاملات کو بہتر بنانے میں اہم رول اداکیا۔ 5000 ہزار سے زیادہ بند کارخانوں کو کھلوا کر پروڈکشن میں اضافہ کیساتھ بے روزگاری کو کم کرنے کی راہ میںکام کیا اور یہ سب تب ہو رہا تھا کہ جب دنیا بھر کی جانب سے ایران پر پابندیوں کا سلسلہ جاری تھا۔سعودی اور ایران کے درمیان ایک اہم قرارداد ان کی محنت کے سبب ہی ممکن ہوپائی۔ مزاحمتی تحریک کو بھی جاری رکھا گیا۔ صیہونی کاروائی کا منہ توڑ جواب دیناانہیں کا کام تھا پھر ایسے باعمل انسان شہادت ہی پاتے ہیں۔ نہ انتظار کرو ان کا اے عزادارو شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے