کراچی ( ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“میں گفتگو کرتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا ،فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو ایک فیصد مل رہا ہے وہ سالانہ تقریباً90ارب روپے بنتا ہے۔وہ پیسے کہاں خرچ ہوئے ہیں سوال تو اٹھتا ہے۔ اگر وہ پیسے خوبصورتی پر اور بی آر ٹی یا کسی اور مد خرچ کردیئے تو سوال تو بنتا ہے ادھر کیوں خرچ کئے خیبرپختونخوا میں کسی کو اپنا سیاسی حریف نہیں سمجھتا،نہیں چاہتا وزیراعلیٰ اور گورنر ہاوس کے درمیان تلخی سے عوام تکلیف برداشت کرے ، مولانا فضل الرحمٰن اور پی ٹی آئی کا اکھٹا ہونا سیاسی قیامت کی نشانی ہے، آفتاب شیرپاو، مولانا عطاء الرحمن سے ملاقات ہوچکی ، جماعت اسلامی اور اے این پی کے پاس بھی جاوں گا۔ میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر کے پی نے کہا کہ سیاسی مخالفت ہوتی رہتی ہے ، سیاسی جماعتوں میں ہمارے دوست بھی ہیں۔میں کسی کو اپنا سیاسی مخالف نہیں سمجھتا۔میں اگر خیبرپختونخوا کی بات کرتا ہوں اپنے صوبے کے وسائل کی بات کرتا ہوں اس میں کسی کو اپنا سیاسی حریف نہیں سمجھتابلکہ سب کو ساتھ لے جانے کی بات کرتا ہوں۔باقی صوبوں میں گورنر اوروزرائے اعلیٰ اتحادی جماعتوں کے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کے وزیراعلیٰ اور پیپلز پارٹی کے گورنر ہیں۔میں نے حلف اٹھاتے ہی کہا تھا کہ میں مرکز اور صوبے کے درمیان معاونت کا کردار ادا کروں گا۔صوبے کی جتنی چیزیں مرکز کے ساتھ زیر التوا ہیں اس کے لئے ہم مل کر کام کریں گے۔ صرف پی ٹی آئی نہیں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلوں گا۔ہم اپنا مقدمہ دھمکی دے کر یا تلخی کے ساتھ نہیں لڑیں گے ہم دلیل اور دلائل کے ساتھ مقدمہ لڑیں گے۔وزیراعلیٰ کے ساتھ بالمشافہ کوئی ملاقات نہیں ہوئی میڈیا کے ذریعے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ میں نے علی امین گنڈا پور کو مدعو کیا ہے کہ وہ تشریف لے آئیں میں ان کے لئے اچھی ضیافت کا بندوبست کرتا ہوں یا وہ مجھے بلا لیں میں چلا جاتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا ہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کے درمیان تلخی سے ہمارے صوبے کی عوام تکلیف برداشت کرے ۔یہ نہیں چاہتا کہ مرکز اور صوبے کی لڑائی سے ہمارے صوبے کی عوام متاثر ہو۔میں وفاق پر چڑھائی کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتاہمارے پاس فورم موجود ہیں۔اس فورم پر ہم جائیں گے اور دلائل کے ساتھ بات کریں گے کہ ہمارا یہ حق بنتا ہے ہمیں یہ چیزیں دینی چاہئے۔ اس کے بعد اگرمرکز نہیں دیتا تو اس کے بعد دوسرا ایکشن ہوتا ہے۔یہ سب سے آخری آپشن کو پہلے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ماضی میں بھی انہوں نے اپوزیشن نہیں کی استعفے دے دیئے۔ان کی اکثریت ہمیں آف دی ریکارڈ کہتی تھی کہ ہم نے یہ کیا کرلیا۔مرکز کے پاس جائیں گے اور اپنا مقدمہ پیش کریں۔اگر ہم یہ دیکھیں کہ ہمیں کتنے پیسے ملے ہیں جو تھوڑی رقم ملی ہے وہ بھی چیک کریں کہاں خرچ ہوئے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو ایک فیصد مل رہا ہے وہ سالانہ تقریباً90 ارب روپے بنتا ہے۔وہ پیسے کہاں خرچ ہوئے ہیں سوال تو اٹھتا ہے۔ اگر وہ پیسے خوبصورتی پر اور بی آر ٹی یا کسی اور مد خرچ کردیئے تو سوال تو بنتا ہے ادھر کیوں خرچ کئے۔میں دستاویز تیار کررہا ہوں اگر ہمارے نیٹ ہائیڈل کے پیسے بنتے ہیں تو ہم اس پر بات کریں گے ۔ریاست ہمارا پانی بھی استعمال کررہی ہے۔اس مالی سال میں چشمہ رائٹ کو ہم مکمل کریں گے۔اگر ہم اپنے پانی کے استعمال پر بات کریں تو اس کے بھی کئی ارب روپے بنتے ہیں جو کہ ریاست کے ذمہ ہیں۔میں تمام سیاسی جماعتوں سے صوبے میں ملاقات کررہا ہوں ۔ان کو اکٹھا کررہا ہوں کہ آئیں مل کر ہم اپنے صوبے کا مقدمہ بنائیں اور مرکز کے پاس جائیں۔ میں نے آفتا ب شیر پاؤ ،مولانا عطاء الرحمن سے ملاقات کی ہے ۔میں جماعت اسلامی کے صوبائی صدر ، اے این پی کے پاس بھی جاؤں گا۔امن و عامہ کو کنٹرول کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے ۔مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی کا اکٹھا ہوناایک بڑی سیاسی قیامت کی نشانی ہے لیکن سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہے۔