• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے 26سال قبل بھارت نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کرکے اس خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا‘ جس کا جواب چھ دھماکے کرکے دیا گیا، ایٹمی قوت بن جانا ہر پاکستانی کیلئے فخر کا مقام ہے۔ اگر ہم 28مئی کی بات کریں تو بلاشبہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کے دھماکے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائینگے، وطن عزیز کو ایک ایٹمی ملک بنانے میں بیشمار مدد گارعناصر موجود ہیں‘ ان میں کچھ بیان کے قابل ہیں اور کچھ ابھی تک راز میں ہیں‘ ایٹمی پروگرام کے سفر کی کہانی جب بھی لکھی اور بیان کی جائے گی‘ اس میں ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی کاوش بنیادی پتھر کی حیثیت سے یاد کی جائیگی، ملک کے حکمرانوں میں ایوب خان بھی اس کردار کا حصہ ہیں، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنا حصہ ڈالا،صدرجنرل محمد ضیاء الحق شہید نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور بھارت کو پیغام دیا‘ یہ ایسا جاندار پیغام تھا کہ راجیو گاندھی کے پسینے چھوٹ گئےتھے۔28 مئی 1998ء کو آج ہی کے دن پاکستان نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میںایٹمی دھماکے کر کے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اور ہمیں آنکھیں دکھانے والا بھارت ان ایٹمی دھماکوں پر انگشت بد نداں رہ گیا۔ 1974ء میں مئی کے ہی مہینے کی گیارہ تاریخ کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو اپنے ایٹمی طاقت ہونے کی مکروہ اطلاع دی تھی بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد ہمارے لیے کوئی دوسرا راستہ یا آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم بھی ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار ہوں۔ امریکہ سمیت اس دور کی دیگر ایٹمی طاقتیں ہمیں اپنے دفاع کا یہ جائز حق دینے کو تیار نہ تھیں۔ وہ بھارت کو تو ایٹمی دھماکے کرنے سے نہ روک سکیں لیکن پاکستان پر ہر انداز اور ہر لحاظ سے دبائو ڈالنے لگیں۔ کہیں لالچ اور ترغیب کے ذریعے اور کہیں معاشی پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے ہمیں ایٹمی طاقت بننے سے باز رہنے پر مجبور کیا جانے لگا،تاہم پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کے عزم صمیم کے آگے کسی کی نہ چل سکی ۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان حکومت کی دعوت پر پاکستان آئے اور اس عظیم کردار کو نبھانے اور آگے بڑھانے کا عزم کیا، حکومت نے بھی انہیں تمام دستیاب وسائل مہیا کئے، غلام اسحاق خان‘ آغا شاہی جیسے دماغ ان کی معاونت کیلئے تھے اور ڈاکٹر خان صاحب کیلئے ہر کام اوپن ہینڈ تھا‘ لیکن اس سب کے باوجود ڈاکٹر صاحب اپنی راہ میں بہت سی رکاوٹوں کا ذکر کرتے رہتے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ مایوس ہوگئے اور واپس جانے کا ارادہ باندھ لیا لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے حکومت کو صورتحال سے بروقت آگاہ کیا تو اس وقت کی حکومت نے انہیں معاملے کی نگرانی اور صورتحال کا جائزہ لینے کاٹاسک سونپا تو ڈاکٹر خان نہ صرف مطمئن ہوئے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اطمینان اور تسلی کیساتھ کام شروع کردیا‘ جنرل ضیاء الحق نے انہیں انکے لب کھلنے سے قبل ہی وہ تمام وسائل مہیا کر دیئے جو انہیں درکار تھے‘ الفاظ تو بھٹو صاحب کے تھے کہ ’’ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائینگے‘‘ لیکن اسے عملی جامہ جنرل ضیاء الحق نے پہنایا‘ اور بھرپور عزم کیساتھ عظیم کام کی تکمیل کیلئے منصوبہ بندی کی۔ ڈاکٹر خان کو اس مقصد کیلئے فری ہینڈ، تمام ضروری فنڈز اور ادارہ جاتی معاونت فراہم کی گئی۔ ڈاکٹر خان نے کہوٹہ کے قریب لیبارٹری اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور پھر دن رات اس مقصد کے حصول کیلئے یکسو ہو گئے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کے سائنسدانوں نے ڈاکٹر خان کی سربراہی میں اگرچہ ایٹم بم بنانےکی صلاحیت حاصل کرلی تھی۔ تمام کولڈ ٹیسٹ کرلیے گئے تھے‘ تاہم پاکستان نے باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا‘ سربراہ حکومت کی حیثیت سے یہ اعزاز محمد نواز شریف کے حصے میں آیا‘ میں خود ان دنوں پارلیمنٹ کا رکن تھا،جب بھارتی ایٹمی دھماکوںکا جواب دیا‘ لہٰذا یہ لازم ہے کہ ہم اپنےاس ایک ایک محسن کو یاد رکھیں جس نے اس عظیم کام میں اپنا خون پسینہ بہایا‘ جہاد افغانستان کا دور کبھی اس حوالے سے فراموش نہیں کیا جاسکے گا کہ اسی دور میں ہم خاموشی کیساتھ ایٹمی قوت بنتے رہے۔ بھارت کو جواب دینے کیلئے ایٹمی دھماکے کا فیصلہ ہوا تو اس کیلئے مختلف سائٹس کا دورہ کیا گیا اور آخر کار بلوچستان کے ضلع چاغی کو منتخب کر لیا گیا، اس ٹیم میں بریگیڈیئر سرفراز علی(مرحوم) شامل تھے جنہیں انکی شاندار کارکردگی کی وجہ سے بعد از وفات ہلال امتیاز عطاء کیا گیا، ایٹمی دھماکے کیلئےٹنل کی تعمیر میں انکا حصہ ناقابل فراموش ہے، جب دھماکہ کرنے کا فیصلہ ہو گیا اور اس لمحے کا انتظار شروع ہوا جب بٹن دبایا جانا تھا، گرین سگنل ملتے ہی بٹن دبا دیا گیا اور پھر نعرہ تکبیر سے چاغی کے پہاڑ لرز اٹھے اور پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔28مئی کا سورج ہماری آزادی و خودمختاری کے تحفظ کا ضامن بن کر طلوع ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان آج ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک نہ ہوتا تو خدانخواستہ بھارت اسکی سلامتی تاراج کرنے کے عزائم کوکب کا پایہ تکمیل کو پہنچا چکا ہوتا، اب چونکہ وہ پاکستان سے براہِ راست ٹکر لینے کی ہمت نہیں کر سکتا اسلئے وہ چوری چھپے وار کرتا رہتا ہے۔چنانچہ 5 اگست 2019ء کو اس نے غیر قانونی طورپر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے اپنے ملک میں ضم کرلیا۔ وہ اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی مدد سے پاکستان مخالف علیحدگی پسند تنظیموں کو لاجسٹک سپورٹ کیساتھ ساتھ مالی امداد اور افراد کو ٹریننگ دینے سمیت ہر حربے استعمال کرتا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اسکے ہر مکروہ حربے پر نظر رکھنی ہے۔یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی ٹرائیکا پاکستان کی ایٹمی پروگرام کے درپے ہے۔مضبوط عسکری حصار میں ہونے کی بنا پر وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر براہ راست قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اسلئے اسکا ہدف پاکستان کو معاشی طورپر دیوالیہ بنانا ہے۔آج پاکستان اگر معاشی بدحالی کا شکار ہے تو اسکے پیچھے بھی پاکستان دشمن طاقتوں ہی کا ہاتھ ہے۔

تازہ ترین