اسلام آباد (مہتاب حیدر) وز یر اعظم شہباز شریف کی قیادت حکومت نے افغانستان اور ایران کے قریب بلوچستان کے 13؍ سرحدی اضلاع کیلئے خصوصی پیکیج پر غور کی خاطر ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے تحت تاجروں نے ایران سے تیل کی درآمد کو قانونی شکل دینے اور 30 سے 50؍ روپے فی لٹر لیوی وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سرحدی علاقوں میں باڑ لگانے سے بلوچستان کے بعض اضلاع میں لوگوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ آنے کے ساتھ کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اب ان علاقوں میں لوگ گزشتہ 282؍ روز سے ناکہ بندی پر احتجاج کر رہے ہیں۔ سینئر سرکاری ذرائع نے بدھ کو دی نیوز سے بات چیت میں تصدیق کی ہے کہ ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے تناظر میں یہ معاملہ بیحد حساس نوعیت کا ہے اسلئے حکومت بارٹر تجارت شروع کرنے کیلئے حل تلاش کر رہی ہے تاکہ کسی بھی طرح سے پابندیوں کی خلاف ورزی سے بچا جا سکے۔ اس صورتحال کی وجہ سے اندرونی سطح پر بھی پیچیدہ حالات پیدا ہوگئے تھے کیونکہ علاقے کے لوگ گزشتہ 282؍ روز سے احتجاج اور دونوں ملکوں کے درمیان نقل و حرکت اور تجارت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان 13 اضلاع میں صوبہ بلوچستان کے 56 فیصد لوگ آباد ہیں۔ ایران سے تیل لانے کیلئے تقریباً دس ہزار موٹر لانچیں استعمال کی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایران سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً دس لاکھ لٹر پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ جاری ہے۔ حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیاں جانتی تھیں کہ ملک بھر میں 14؍ ہزار افراد کا نیٹ ورک موجود ہے جو مبینہ طور پر ایران سے اسمگل شدہ تیل کی نقل و حمل اور اس کے استعمال میں ملوث ہیں۔ اب وزیر تجارت اور دیگر وزراء کی قیادت میں اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر پابندیوں کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی کیے بغیر سرحدی تجارت کو باقاعدہ بنانے کیلئے آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ اس بارٹر ٹریڈ میں شامل تاجروں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ 30 تا 50 روپے فی لٹر لیوی عائد کی جا سکتی ہے۔ ان تاجروں نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں قائم چوکیوں پر پٹرول اور ڈیزل کی نقل و حمل کیلئے 50 روپے فی لٹر تک رشوت وصول کی جاتی رہی ہے۔ اگر حکومت 50 روپے فی لٹر تک لیوی وصول کرنا شروع کر دے تو ان کیلئے سرکاری خزانے میں ادائیگی مسئلہ نہیں ہوگی۔ توقع ہے کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی اس مجوزہ پیکج پر حتمی فیصلے کیلئے اپنی مفصل رپورٹ وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں میں چار میں سے صرف دو مارکیٹس ہی فعال ہیں۔ سیکڑوں کلومیٹر تک پھیلے سرحدی علاقے میں اس انداز سے بارٹر ٹریڈ شروع کرنے کی ضرورت ہے جہاں بینکنگ لین دین کا عمل دخل نہ ہو اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اشیا کے تبادلے کی صورت میں تجارت کو فروغ دے سکیں۔