• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈپارک … وجاہت علی خان
پاکستان جیسے مقید معاشرے میں انگریزی لفظ ’’لبرل ازم ‘‘ کو فحاشی سمیت جو چاہے معنی پہنا دیئے جائیں لیکن یہاں برطانیہ یا مغرب میں لبرل ازم کو مثبت ترین معنی میں دیکھا سمجھا اور لاگو کیا جاتا ہے اور مہذب معاشرے اس کے ثمرات سے فوائد بھی اٹھا رہے ہیں ۔ اصل میں لبرل ازم اس سیاسی فلسفے کا نام ہے جو شخصی آزادیوں، افراد کو اظہار رائے کی آزادی اور آزادانہ تجارت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اٹھارہویں اور اکیسویں صدی میں انقلاب فرانس اور بعد ازاں امریکی انقلاب بھی اسی ایک لفظ کے بطن سے پیدا ہوا، جب مطلق العنانی اور جاگیرداری کیخلاف مڈل کلاس طبقہ نے جدوجہد کی ،حقیقتاً جدید دُنیا کی موجودہ صورت گری اسی لبرل ازم کی وجہ سے ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد تقریباً اٹھائیں تیس سال تک پاکستان میں کلبوں کی رونقیں، بادہ خوروں کی چہلیں اور شراب خانوں میں جام و مینا کے بہاؤ بڑے کرّوفر سے جاری رہے۔ اُس وقت تک لاہور کی ہیرا منڈی بھی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ رقص کناں تھی اور عقائد کی شمشیر و سناں بھی طمطراق سے موجود تھی، طاؤس و رباب پر بھی کوئی قدغن نہ تھی اور عبادت گاہیں بھی آباد تھیں یعنی سفر زیست پوری رنگا رنگی اور رعنائیوں سے بھر پور طریقہ پر اپنی سماجی توانائیوں سمیت سے بھاگ رہا تھا۔ ذہن کھلے تھے اور معاشرہ فرسٹریشن سے قدرے پاک تھا۔ کسی زاہد کے ایمان کو کوئی خطرہ تھا اور نہ رند کے جام پر کوئی قدغن ۔ تو پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے لبرل حکمرانوں نے نہ صرف شراب پر پابندی عائد کر دی بلکہ بازار حسن کے حسن کی حالیہ خانہ ویرانی میں بھی حصہ دار بنے ۔ آج کوئی باشعور انسان ان دندناتے ہوئے ”عقیدوں کے سکندروں” سے یہ نہیں پوچھتا کہ بھائی لوگو! کیا پاکستان میں اس کی قیام کے پہلے 30سال تک’’ اسلام‘‘ نہیں تھا یا اس ملک کے مکینوں کو وہ اعتقادی اسباق یاد نہ تھے جن کی دہائی دے کر آج وہ ہر اس سماجی خواہش کو دبانے کے در پے رہتے ہیں جس سے افراد کی تفریح و طبع یا بنیادی ضروریات کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی لایعنی پابندیوں کے بعد پاکستان کی معیشت کو کیا فائدہ ہوا اور مجموعی طور پر سماج کی اخلاقی قدروں میں کیا بہتری آئی ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ دنیا بھر کے بڑی تعداد میں اسلامی ملکوں میں شراب کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ کہیں حکومتی سطح پر آزادی سے اور کہیں چھپ کر لیکن شراب سے مبرا دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ بڑے شہر میں ” بازار حُسن ہونا ایک لازمی امر ہے۔ انسانی معاشروں کی پاکیزگی کیلئے دنیا کے تقریباً ہر میٹرو پولیٹن شہر میں ریڈ لائٹ ایریا ہوتا ہے اس لئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ یہ مہذب معاشروں میں ڈرین کا کام کرتے ہیں۔ برصغیر کے ممتاز شاعر جوش ملیح آبادی نے بھٹو دور کے ایک طاقتور وزیر مولانا کوثر نیازی سے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر تم لوگ ہیرا منڈی پر پابندی لگاؤ گے تو لاہور کے ہر محلے میں اس قسم کی منڈیاں قائم ہو جائیں گی، اس لئے غنیمت اسی میں ہے کہ یہ ” منڈی شہر میں ایک ہی جگہ رہے۔ جوش صاحب کی اس دانشمندانہ رائے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا اور وقت نے آج ثابت کر دیا کہ جوش نے 100فیصد درست مشورہ دیا تھا کہ معاشرے کو جس قدر مقید کیا جائے گا برائیوں و جرائم میں اسی شرح سے اضافہ ہوتا جائے گا۔ آج صورتحال یوں ہے کہ بات کوٹھوں سے کوٹھی تک جا پہنچی ہے۔ کیا غلط کہ شراب خانے اور مجروں کا دروازہ اگر بند ہے تو غریبوں پر حالانکہ پچاس سال پہلے جو کچھ قانونی طریقوں سے ہوتا تھا آج چوری چھپے اور غیر قانونی طور پر لیکن پورے طنطنے سے ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ماڈرن اور محفوظ ترین کوٹھی خانے موجود ہیں جہاں پر ریاستی طاقت کے چیدہ چیدہ مہرے " آسودگی" حاصل کرنے اور چشمہ رقص و سرود سے فیضیاب ہوتے ہیں اور پھر ان دنوں تو ’’فارم ہاؤسز‘‘ کے نام پر بھی عشرت ونشاط کے بیشمار گھروندے وجود میں آ چکے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں عقائد کے تڑکے نے اس ملک کو جہاں اور بہت سے بڑے بڑے نقصانات پہنچائے ہیں وہاں لبرل ازم کے لفظی معنی بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، یعنی ملک کے پڑھے لکھے لوگ بھی لبرل ازم کو فحاشی جیسے لفظ سے منسلک کر کے اپنی کم علمی کا ثبوت دیتے ہیں ، حالانکہ فحاشی کیلئے انگریزی کا لفظ VULGARTY ماخوذ ہے جس کا سیدھا مطلب غیر اخلاقی، غیر سماجی یا غیر تہذیب یافتہ حرکات کرنا ہو سکتا ہے لیکن بعض اثر انداز ہونے والے ناؤ نوش کی محافل اور رقص کی پارٹیوں کو بھی فحاشی کے دائرے میں لاکر اعتقاد پرستوں اور عقل دشمنوں کو مزید تاؤ دے رہے ہیں کہ وہ اندھی تقلید کے گرز سے سکیاں لیتے معاشرے کی رہی سہی سانسیں بھی چھین لیں تا کہ “ موت کا منظر “ کی مزید اشاعت جاری رہے۔ بعض لوگ تو مخلوط تعلیم ، بوائے فرینڈ وگرل فرینڈ کے کلچر اور آرٹ کو بھی فحاشی کہہ کر انتہا پسند ذہنیت کو دعوتِ "مار دھاڑ دے رہے ہیں۔ ادب سے گزارش ہے کہ لبرل اور مہذب معاشروں میں مخلوط تعلیم اور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کی مکمل اجازت ہے۔ ناؤ نوش اور رقص و سرود کی پارٹیوں کو بھی غلط یا غیر اخلاقی نہیں سمجھا جاتا لیکن کیا آپ ان معاشروں کو فخش کہہ سکتے ہیں؟ یہ سب چیزیں قانونی ہیں اور ہر مرد و زن کو اس کے حق و حقوق اور حدود و قیود کے بارے میں مکمل آگاہی دے دی گئی ہے۔ عورت کو یہ معاشرے اس قدر تحفظ دیتے ہیں کہ پاکستان آئندہ ہزار سال تک اس نہج تک پہنچ نہیں سکتا۔ شراب خانے ہوں یا کلب ، لوگ انجوائے تو کرتے ہیں لیکن کسی کی مجال نہیں کہ بنا کسی کی مرضی کے کسی طرف آنکھ بھر کے دیکھ سکے۔ کسی کے ساتھ زبردستی جنسی حرکات کی سزا اتنی ہی ہے کہ جتنی قتل کی سزا۔ چھوٹے بچوں سے بدفعلی کی سزا اس قدر خوفناک ہے کہ ایسے مجرم کو سزا کاٹ لینے کے بعد بھی قانون اکیلا و آزادر ہنے نہیں دیتا۔ اب ذرا اپنے معاشرے کے گریبان میں جھانکئے، آپ کو بدصورت ترین صورتحال دکھائی دے گی۔ قنوطیت سے اٹے ہوئے معاشرے میں اگر عوام الناس کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر بھی قدغن لگائی اور بے جا پابندیاں عائد کی جائیں گی تو اس سے جرائم مزید بڑھیں گے، بدتہذیبی اور اخلاق باختگی میں اضافہ ہوگا ، لوگ مسرت کے حصول کیلئے ناجائز ذرائع استعمال کریں گے۔ تو کیا بہتر یہ نہیں کہ با تہذیب و مہذب معاشروں کی طرز پر ضروری قانون سازی کر کے مغربی ممالک کی طرح انہیں تہذیبی دائرے میں لایا جائے، میں بڑی ذمہ داری سے سمجھتا ہوں کہ موجودہ پاکستانی معاشرہ بُری طرح جنسی بیمار اور امریکہ، یورپ و برطانیہ کے معاشروں سے انتہائی زیادہ اخلاق باختگی میں دھنسا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستانی معاشرے کی جاری حالت فحاشی کے انتہائی زیریں حصے تک پہنچی ہوئی ہے آتی جاتی حکومتوں کی مال بناؤ پالیسیوں کی وجہ سے ریاست آج تک قوم کی اخلاقی قدروں کی بحالی پر ایک فیصد توجہ بھی نہیں دے سکی، چنانچہ پستیوں کی گہرائی میں اوندھے منہ گری اس قوم سے اگر بسنت بھی چھین لی جائے گی ، کلب ورقص و سرود پر بھی پابندیاں ہوں گی ، گرل فرینڈ بوائے فرینڈ جیسی بنیادی ضرورت کو بھی گناہ عظیم بنادیا جائے گا تو پھر یہ تمام گناہ چھپ کر ہوں گے لیکن ہوں گے ضرور، اور روکنے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔ اگر کسی کو میری بات پر شک ہو تو وہ بحث کر لے ۔
یورپ سے سے مزید