اس وقت دنیا کی صورتِ حال واشگاف الفاظ میں بتا رہی ہے کہ ہم سب حالتِ جنگ میں ہیں۔ صرف وہی نہیں جن کی طرف سے جارحانہ پیش رفت ہورہی ہے یا جو دفاعی حالت میں ہیں، بلکہ وہ بھی جو جنگ اور جارحیت کے عزائم و اقدامات کی توثیق کررہے ہیں اور کمک فراہم کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ وہ بھی جو اختیاری یا جبری خاموشی کے ساتھ جنگ ہوتے دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ وہ بھی جو اِس جنگ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں - سب کے سب حالتِ جنگ میں ہیں۔
اصل میں یہ آج کی یک قطبی دنیا کا مسئلہ ہے ، جس میں فیصلے جنگل کے قانون کے تحت کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں جہاں جہاں اور جس جس شکل میں جارحانہ اقدامات کیے گئے ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھی ہے، انھیں مسترد اور ان کی مذمت کی گئی ہے۔ ایسا صرف ان کی طرف سے نہیں ہوا جو جارحیت کا شکار ہوئے یا جن پر جنگ مسلط کی گئی بلکہ ہر اُس جگہ جہاں انسانی ضمیر بیدار ہے وہاں بربریت اور بہیمیت کے خلاف آواز بلند ہوئی۔
آج انسانیت پھٹی ہوئی آنکھوں سے اقتدار کی سفاکی، بربریت اوروحشت کے بدترین تماشے فلسطین میں دیکھ رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کس کی طرف سے اور کس کس کے ایما پر ہو رہا ہے ؟ وہ جو آزادی اور مساوات کے داعی ہیں، حقوقِ انسانی کے علم بردار اور انصاف، جمہوریت اور امنِ عامہ کے سب سے بڑے چیمپیئن ہیں، قتل و غارت گری کا یہ بازار انھی کا گرم کیا ہوا ہے۔
یہ تأسف کا مقام تو ضرور ہے لیکن تعجب کا یقینا نہیں ہے۔ اس لیے کہ طاقت کا کوئی مذہب، کوئی عقیدہ اور کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔ وہ کسی رنگ، نسل اور زبان کو نہیں جانتی۔ اسے کسی تہذیب یانظریے سے سروکار نہیں ہوتا۔ اسے صرف اپنی خواہشات کی تکمیل سے غرض ہوتی ہے ،خواہ اس کے لیے انسانی تہذیب و تمدن کا ملیا میٹ ہو یا پوری انسانیت ہی کیوں نہ دائو پر لگی ہو۔
جب یہ صورتِ حال ہو تو وہ لوگ جو سوچتے ہیں، لکھتے ہیں اور انسانی تہذیب، اس کی اقدار پر یقین رکھتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں، انھیں کیا کرنا چاہیے؟
کہتے ہیں کہ قلم میںبڑی طاقت ہوتی ہے۔ تاریخ سے قوموں اور تہذیبوں کے ایسے حوالے بھی مل جاتے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بعض کتابوں نے معاشروں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ادیب نے اپنے قلم کے زور سے تباہی اور جنگ کے پہیے کو الٹا کبھی نہیں پھیرا۔
دنیا میں کیسی کیسی جنگیں نہیں لڑی گئیں اور جب یہ جنگیں لڑی جارہی تھیں، عین انھی لمحات میں انسانیت کا ضمیر بن کر اہلِ فکر اور اہلِ قلم نے کب کب آواز نہیں اٹھائی۔ ایذرا پائونڈ، ژاں پال سارتر، برٹرینڈ رسل، سیمون دبوار، ایڈورڈ سعید، گنتر گراس، نوم چومسکی نجیب محفوظ، ارون دھتی رائے اور امیتاو گھوش جیسے لوگ ظلم و بربریت کے اقدامات کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے آئے ہیں لیکن طاقت نے بدمستی کے عالم میں ایسی کسی آواز کو کبھی نہیں سنا۔
یہ حقیقت ہے کہ ادیب کسی تخریبی طاقت کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتا، تو پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ عملاً میدانِ جنگ میں جا اُترے، خاموشی اختیار کرے یا پھر ادب ترک کرکے کسی دوسرے مفید کام میں مصروف ہوجائے؟ ہر شخص تو ایذرا پاؤنڈ، سارتر یا برٹرینڈرسل نہیں ہوسکتا۔ عامۃ الناس کی طرح لکھنے والوں کی اکثریت بھی ٹی ایس ایلیٹ، جیمز جوئس اور ڈی ایچ لارنس پر مشتمل ہوتی ہے جو بے شک جنگ سے نفرت کرتی ہے اور اس کے خلاف لکھتی بھی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج ادب اور ادیب کا کردار معاشرے میں وہ نہیں ہے جو اگلے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ زمانے کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں اور ادیب کو اپنی باشعور حیثیت کے پیشِ نظر بدلتے تقاضوں کے حقائق کو جاننا چاہیے۔ آج کا ادب ہم عصر دنیا اور اس کی متغیر انسانی صورتِ حال سے بے گانہ نہیں ہوسکتا۔
یہ ٹھیک ہے کہ ادب دائمی اقدار سے سروکار رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آج وہ اپنے عہد کی سچائیوں کو فراموش بھی نہیں کرسکتا۔ آج کا ادیب اگر معاشرے سے مربوط ہے اور وہ اس کے ساتھ مجہول رشتہ نہیں رکھنا چاہتا بلکہ زندہ تعلق کا خواہاں ہے تو اسے بہ ہر طور عصری حقائق سے باخبررہنا اور ان کی طرف فعال رویہ بھی اختیار کرنا ہوگا۔
اہلِ فکرو نظر اور اہلِ قلم کی حیثیت معاشرے میں وہی ہوتی ہے جو انسانی وجود میں دماغ کی۔ چناں چہ نئی زندگی اور نئے زمانے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ بات صاف طور سے سمجھی جانی چاہیے کہ اب ادیب معاشرے میں پیدا ہونے والے عارضی نوعیت کے مسائل سے بھی بے تعلق نہیں ہوسکتا۔
اس لیے کہ عصری زندگی میں ’’عارضیت‘‘ کا چلن بہت بڑھ گیا ہے۔ چناں چہ اب اس کی بابت ادیب کی خاموشی یا تأمل اس کی خوابیدگی کے مترادف ہوگا اور یوں اس کی حیثیت معاشرے میں عضوِ معطل کی سی ہو کر رہ جائے گی، جس کا ہونا نہ ہونا دونوں کوئی معنی نہیں رکھتے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ادب انسانی تجربے کے جمالیاتی اظہار سے عبارت ہے، لیکن عصرِ حاضر کی انسانی زندگی اور اس کا تجربہ سیاسی عوامل و عناصر کے بغیر نہ تو مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آج کا ادیب اپنے عہد کی سیاسی صورتِ حال اور اس کے انسانیت پر اثرات کو جانے بغیر عصری شعور کا ادب تخلیق نہیں کرسکتا۔ اسے ان حقائق کو اپنی حسیت کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا کہ اس کے بغیر آج کے انسان کی روح تک رسائی ممکن نہیں۔
انسانی جذبہ و احساس پر اور انسان کی روح پر عہدِ جدید نے جو اثرات مرتب کیے ہیں، انھیں جاننے کے لیے آج کے پورے انسانی تجربے کو سمجھنا ضروری ہے۔ مغائرت، بے حسی، خوف اور بے یقینی کا تجربہ پہلے بھی مختلف ادوار میں انسانوں کو ہوتا رہا ہے لیکن آج یہ تجربہ پوری انسانی زندگی کا ماحصل بن چکا ہے۔
یہ صورت تو شاید پہلے کبھی انسانی فکر و احساس پر نہ گزری ہوگی۔ آج کے انسان کی بپتا، اس کی روح کا المیہ اور اس کی افتادِ طبع کی کیفیت کو تہ در تہ سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
اس گفتگو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نئے ادب اور نئے ادیب کے سامنے ہم اس کے سماجی کردار کا کوئی مطالبہ رکھ رہے ہیں یا اسے ادب تخلیق کرنے کا کوئی فارمولا بتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نہیں، بلکہ وہی پرانی اور چھوٹی سے بات ہے کہ اسے معاصر سچائیوں سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔
ہمیں انتظار حسین کی اس بات سے اختلاف نہیں کہ ادیب کو رائے کے اظہار ہی کی نہیں بلکہ اس کی بھی آزادی ہونی چاہیے کہ اسے کب اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے۔ لیکن سوال اب یہ ہے کہ اگر ادیب کا تأمل یا سکوت طول کھینچتا ہے تو ادیب اور معاشرے کا زندہ باہمی تعلق کیوں کر برقرار رہے گا۔
ٹھیک ہے ضروری نہیں کہ ہر سماجی مسئلے کو ادیب تخلیقی تجربہ بنا کر سمجھنے کی کوشش کرے۔ وہ اس کے بغیر بھی معاشرے سے اپنے ربط کا اظہار کرسکتا ہے، اپنی گفتگو سے، مکالمے سے، تقریر سے ،کالم سے یاکسی بھی شکل میں۔ البیئر کامیو نے الجزائر کی تحریکِ آزادی کی مخالفت کی تھی۔ گو بعد میں وہ ان نظریات کا قائل نہ رہا ہو لیکن زندگی نے پھر اسے تلافی کی مہلت نہ دی۔
اپنے آخری ناول ’’پہلا آدمی‘‘ میں وہ ہیرو کو باپ کی قبر پر کھڑا ہوا دکھاتا ہے جو عالمِ شباب میں جنگِ عظیم میں کام آگیا تھا۔ ادھیڑ عمر کا ہیرو کتبہ پڑھ کر چکراتا ہے کہ یہ جواں سال لڑکا جو چوبیس برس کی عمر میں مارا گیا، اس کا باپ تھا۔ ہیرو کے احساسات جنگ کی ہول ناکی پر تبصرہ ہیں، لیکن یہ تبصرہ بڑی معنویت سے ہم کنار ہوئے بغیر ختم ہوجاتا ہے، اس لیے کہ کامیو کی اپنی زندگی بھی یہیں ختم ہوجاتی ہے۔ ممکن ہے وہ اور جیتا تو اپنے بعض افکار و خیالات سے اور اپنی بعض آرا سے رجوع کرتا۔
بہ ہر حال اس کی عظیم انسان دوستی بھی اس کے دامن کا یہ داغ نہیں دھوسکتی۔ کہنے والی بات اس وقت یہ ہے کہ آج حقائق کو مؤخر کر نے یا ان سے لاتعلق یا تارک الدنیا صوفی ہونے سے ادیب کا کام نہیں چلے گا۔ اب ایک گوشے میں بیٹھ کر اور اپنی دنیا میں مست ہوکر شعر و نغمہ تخلیق کرتے رہنا کافی نہیں ہے۔ آج ادیب و شاعر کو اپنے خارج کی دنیا سے ایک باقاعدہ رشتہ رکھنا ہوگا اور اس پر توجہ دینی ہوگی۔
ادیب پہلے بھی صرف اپنے زمانے میں نہیں جیتا تھا بلکہ وہ اس کے ساتھ ہی ساتھ پچھلے اور اگلے زمانوں میں بھی سانس لیتا تھا لیکن اب یہ کام اسے شعوراً اور التزاماً کرنا ہے کہ اس کے بغیر عصری آگہی اور اپنے عہد سے زندہ تعلق دونوں ہی ممکن نہیں۔
حالتِ جنگ میں عام حالات کی زندگی کے اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آج کی زندگی ماقبل کی صورتِ حال سے یکسر مختلف نقشہ پیش کرتی ہے۔ اس کی طرف ادیب کا رویہ بھی الگ ہونا چاہیے۔ آج کے بہیمانہ طریق نے جمہوریت، انصاف، امن، ترقی پسندی، روشن خیالی اور انسان دوستی ایسے نظریات کی مکمل نفی کردی ہے۔ آج یہ سب دل کش دعوے بالکل کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں۔ آج دنیا پر طاقت اور ہوس کا راج ہے۔ طاقت کسی غیر مرئی شے کو نہیں مانتی۔ وہ صرف اس شے کو تسلیم کرتی ہے جسے چھو کر دیکھا جاسکے، جسے زیر کیا جاسکے یا حاصل کیا جاسکے، یا پھر نیست و نابود کیا جاسکے۔
آج انسانوں کے درمیان مغائرت کے احساس اور بے حسی کے رویے کو دانستہ فروغ دیا جارہا ہے۔ انسانی دنیا کو ایک ایسا وسیع و عریض سرد خانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں انسانی اجسام موجود تو اپنے اصل خدوخال میں ہوں گے لیکن ان کے بیچ تعلق کی گرمی نہ ہوگی، وہ حدت نہ ہوگی جو جذبے کے اشتراک سے ہوتی ہے۔ تو یہ زمانہ ہمارے اد ب اور ہمارے ادیبوں کے سامنے جو سب سے بڑا سوال پیش کرتا ہے وہ انسانی جذبہ و احساس اور انسانیت کی بقا سے ادب اور ادیب کی وابستگی کا سوال ہے۔
اگر آج کے ادیب کو انسانیت محجر شکل اور انسان حنوط شدہ لاشوں کی صورت میں قبول نہیں ہیں تو پھر اسے اس سوال کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔