امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ لوگ اپنی محنت سے تعلیم حاصل کریں اور 1 موبائل پر انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، موٹر سائیکل چھینتے ہوئے کس شہر میں لوگوں کو مارا جاتا ہے؟
ادارۂ نورِ حق کراچی میں امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ غلط بیانی کر کے آپ لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے، حکومت اپنی ذمی داری ختم کرتی جا رہی ہے، جامعات کو پیسے نہیں دیے جاتے، نہ تعلیم دے رہے ہیں، نہ آپ نوجوانوں کو روزگار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کچھ کرنے کو تیار نہیں، لوگ مایوس ہوتے جا رہے ہیں، اب والدین چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو باہر بھیج دیں، یہ خوف وہ ہم پر مسلط کر رہے جو فارم 47 پر حکومت کو مسلط کرتے ہیں، کراچی میں ڈاکوؤں کو پولیس کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، 78 سے زائد شہری 5 ماہ میں ڈاکوؤں کا نشانہ بنے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ لاہور میں بھی اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں ہوتی ہیں تو وہ بھی غلط ہے، دنیا میں کہاں اس طرح سر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اس وقت تعلیمی اداروں میں بھی مافیا نظر آ رہی ہے، 5 سال میں لوٹ مار کے 90 ہزار واقعات ہوئے، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے بھتہ خوری کے کلچر کو فروغ دیا، لوگوں نے ان کو انتخابات میں مسترد کیا لیکن ان کو لا کر مسلط کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس شہر کے لوگ انتہائی پریشان ہیں، انتہائی مہنگی تعلیم ہے، مافیا کو ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے، 65 ارب روپے سے 22 ارب روپے جامعات کی گرانٹ کر دی گئی ہے، جامعات کو صوبائی حکومت کیا دے رہی ہے؟ حکومت کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، نوجوان یہ سب دیکھنے کے بعد مایوس ہو رہے ہیں، جو نوجوان کچھ کر رہے ہیں ان کے لیے مواقع نہیں، پولیس کا نظام دیکھیں آدھے سے زائد پروٹوکول پر تعینات ہیں۔
حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ 4 سال سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی شہر پر حکومت کر رہی ہیں، دونوں پارٹیوں نے ہی بھتہ خوری اور جرائم پیشہ افراد کو ہم پر مسلط کیا ہے، عوام حقوق کے لیے باہر نکلیں، ہم سب بچوں کو باہر نہیں بھیج سکتے، اس شہر میں 3.5 کروڑ لوگ رہتے ہیں، اپنے زندہ پن کا ثبوت دیں، سیف سٹی پروجیکٹ میں کیمروں کا ٹھیکہ مل کس کو رہا ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ جماعتِ اسلامی پر لوگوں نے اعتماد کیا ہے، ہمیں ووٹ دیا ہے، ہم اس شہر کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہیں، میں اس شہر کا مقدمہ ملک بھر میں لڑوں گا، یہ منی پاکستان ہے، پہلے تعلیم اور نوکری نہیں ملتی اور پھر جان کو خطرہ ہوتا ہے، جب تک بچے گھر واپس نہ آئیں والدین پریشان رہتے ہیں، پولیس میں آدھے وہ ہیں جو اس وقت پروٹوکول میں چل رہے ہیں، باقی وزراء اور افسران کی سیکیورٹی میں لگے ہوئے ہیں۔
امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کا یہ بھی کہنا ہے کہ تھانے کی مدد کے بغیر منشیات کا اڈہ کیسے چل سکتا ہے؟ سندھ حکومت کی سرپرستی کے بغیر کیسے یہ کام ہو سکتا ہے؟ کچھ لوگ تو وہ ہیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہاں مسلط کیے جاتے ہیں۔