اسلام آباد(تنویرہاشمی)رواں مالی سال 24- 2023 کا اقتصادی سروے جاری‘ پاکستان کا قرضہ بڑھ کر 67 ہزار 525 ارب روپے ہو گیا‘ جی ڈی پی گروتھ 2.38 فیصد رہی‘ زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ‘ شرح نمو 6.25 فیصد رہی ، صنعت 1.21 فیصد ، خدمات کے شعبے کی شرح نمو 1.21 فیصد رہی۔
رواں مالی سال فی کس آمدن129ڈالر اضافے سے 1680ڈالر رہی ، قومی معیشت کا حجم 11 فیصد اضافہ کے بعد 375 ارب ڈالر ہو گیا۔
سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 13.1فیصد اور بچت کی شرح جی ڈی پی کا 13فیصد رہی ، ٹیکس ریونیو کی گروتھ 29.3فیصد ، مالیاتی خسارہ 3.7فیصد رہا، مہنگائی کی اوسط شرح 24.5 فیصد رہی‘ بے روز گاری کی شرح 6.3فیصدرہی جبکہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے واضح کیاہے کہ ہر شعبے کو لازمی ٹیکس دینا ہوگا۔
ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے‘ سب کو ملک کی ترقی اور ریونیو میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا‘ ہمیں آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت تھی کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا‘ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد تک آگئی ہے‘ جلد سنگل ڈجیٹ پر بھی آجائیگی‘ خیرات سے فلاحی ادارے تو چل سکتے ہیں ملک نہیں‘ ملک چلانے کیلئے ٹیکس ضروری ہے‘سرکاری اداروں میں ایک ہزار ارب روپے کاخسارہ برداشت نہیں کر سکتے‘18ویں ترمیم کے ساتھ وفاق کو صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے‘اسٹیل ملز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، صرف اسکریپ میں بکے گی‘ ائیر پورٹس کی آؤٹ سورسنگ جاری رہے گی‘پاسکو جیسے ادارے چلانا حکومت کی ذمہ داری نہیں بجٹ تقریر میں پاسکو کے حوالے سے اہم اعلان کروں گا۔۔
منگل کو 24۔2023 کے اقتصادی سروے کے اجراء کے موقع پر پریس بریفنگ کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کا جب آغاز ہوا تو جی ڈی پی 0.2فیصد پر تھی ، روپے میں 29فیصد گراوٹ آچکی تھی اور زرمبادلہ کےذخائر محض دو ہفتے کے درآمدی بل کو پورا کر سکتے تھے‘ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں آئی ایم ایف کے ساتھ 9ماہ کےلیے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کا بہت اہم فیصلہ کیاگیا ‘اگریہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو آج صورتحال بہت مختلف ہوتی اور ہم آج بیٹھ کر معاشی اہداف پر بحث نہ کررہے ہوتے ، کیونکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی پلان بی نہیں تھا‘رواں مالی سال بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی بنیادی وجہ بلند شرح سود اور توانائی کی عدم مساوات تھی تاہم زراعت کے شعبہ نے نمایاں ترقی کی ‘ڈیری اور لائیو اسٹاک کے شعبہ میں بھی نمایاں نمو ہوئی ہے‘ایف بی آر کے ٹیکس ریونیو میں 30فیصد تک گروتھ آئی جو بہت اہم ہے، پرائمری بیلنس سرپلس رہا اس میں صوبوں نے ڈسپلن سے ڈلیورکیا ، رواں مالی سال کے شروع میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 6ارب ڈالر کا تھا ، لیکن اب یہ 20کروڑ ڈالر پر ہے ۔