تحریر: سید علی جیلانی… سوئٹزر لینڈ
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے، خانہ کعبہ سب سے پہلے حضرت آدمؑ نے اللہ کے حکم سے بنایا تھا پھرحضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیلؑ نے باقاعدہ اس کی تعمیرکی اور اسے تمام لوگوں کے لیے عام کیا ۔کعبہ معظمہ اتنی برکت والا ہے کہ رب ذوالجلال ہرروزوہاں پرایک سوبیس رحمتیں نازل فرماتاہے ،چالیس رحمتیں ان نمازیوں کے لئے جوکعبہ میں نمازپڑھتے ہیں اور ساٹھ رحمتیں کعبۃ اللہ کا طواف کرنیوالوں کے لئے اوربیس رحمتیں کعبۃ اللہ کی طرف نظرکرنیوالوں کے لئے ہیں، حج حضرت ابراہیمؑ کے عہد٤٥٠٠ سال سے عربوں میں عبادت کا مسلمہ طریقہ چلا آرہا تھااور قدیم آلِ عرب اس سے تمدنی اور مالی فوائد حاصل کرتے تھے۔ تمام عرب سے لوگ یہاں آ کر اپنا مال فروخت کرتے دوسروں سے مال خریدتے ،شعر و شاعری کے پروگرام ہوتے ایک میلے کا سا سماں بن جاتا تھا۔ مگر عبادت کیا تھی سیٹیاں بجاتے، کعبہ کا طواف برہنا ہو کر کرتے تھے،قربانی کے جانور خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ رکھ دیتے، جانوروں کا خون خانہ کعبہ کی دیواروں پر لگاتے تھے۔ ایک خدا کے علاوہ تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اور کہتے تھے مانتے تو ہم ایک اللہ کو ہیں مگر یہ بت ہمارے سفارشی ہیں زندگی بھر میں صرف ایک دفعہ حج فرض ہے اور ساتھ یہ بھی ہے کہ بندہ قوت بھی رکھتا ہو یعنی استطاعت، حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے رسول ﷺ نے فرمایا جس کو کسی صریح حاجت نے نہ روکا ہو، نہ کسی ظالم سلطان نے، نہ کسی روکنے والے مرض نے اور پھر اُس نے حج نہ کیا ہو اور اسی حالت اسے موت آجائے تو اسے اختیار ہے خواہ یہودی بن کر مرے یا نصرانی بن کر مرے ،اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ”اور یاد کرووہ وقت جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اس گھر کی جگہ تجویز کی تھی اس ہدایت کے ساتھ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،اور میرے گھر کوطواف کرنے والوں اورقیام ورکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ،اور لوگوں کو حج کے لیے پُکاردے کہ وہ آئیں تیرے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار، (الحج٢٦۔٢٧)” اس فرمان کی وجہ ہے کہ لاکھوں مسلمان آج تک یہ کہتے ہوئے آتے ہیں، حج کی تین اقسام ہیں حج افراد ، حج قیران اور حج تمتع؛ اگر عمرہ کیے بغیر براہ راست 8ذوالحجہ کو منی پہنچ کر مناسک حج ادا کیے جائیں تویہ حج افراد کہلاتا ہےاگرعمرہ کرنے کے بعد احرام نہ اتاراجائے اوراسی احرام میں حج بھی اداکرلیا جائے تو یہ حج قیران کہلاتا ہے اوراگرعمرہ کرکے احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجائیں اور حج کے لیے الگ سے احرام باندھیں تویہ حج تمتع کہلاتا ہے ،احرام باندھنے کے لیے پہلے غسل کیا جاتا ہے اسکے بعد مرد حضرات ایک ان سلی سفید چادر نیچے اور ایک ان سلی سفید چادر اوپر لے لیتے ہیں جبکہ خواتین اپنے لباس کے اوپر ہی ایک سفید رومال سر پر اوڑھ لیتی ہیں اورچہرہ سے بھی کپڑا ہٹادیتی ہیں اس کے بعد دونفل ادا کیے جاتے ہیں حالت احرام میں جسم پر یا کپڑوں پر خوشبو لگانا، خوشبووالا صابن استعمال کرنا،زعفران کا استعمال اور تیزخوشبووالے کپڑے یا دوائیوں کا استعمال بھی منع ہے،شکار کرنا یا شکار میں مدد کرنا بھی ممنوع ہو جاتا ہے یہاں تک کی اپنے ہی جسم پر رینگنے والی جوئیں یا تنگ کرنے والے مکھی یا مچھروغیرہ کو مارنا بھی منع ہے ،حالت احرام میں جنسی افعال اور جنسی گفتگو پر بھی سختی سے پابندی عائد کی گئی ہے اس کے علاوہ لڑائی جھگڑا اور نافرمانی کا کوئی بھی کام اس حالت میں سختی سے منع ہے ۔احرام کی حالت میں منہ ڈھانپنا یا سرڈھانپنا بھی منع ہے حج کے لیے 8ذوالحجہ کو تمام حجاج کرام حالت احرام میں منیٰ پہنچ جاتے ہیں یہ خیموں کی بستی ہے رات یہاں گزارکر9ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے قبل میدان عرفات میں پہنچنا ضروری ہے زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک میدان عرفات میں قیام کرنا حج کا ’’رکن اکبر‘‘ ہے 9ذوالحجہ کو یوم عرفہ کہاجاتا ہے اس دن حاجی لوگ میدان عرفات میں وقوف کر تے ہیں یعنی صبح سے لے کر سورج غروب ہونے تک وہاں ٹھہرے رہتے ہیں اوراپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ سے خوب گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہیں۔حجاج کرام میدان عرفات میں ظہراورعصر کی سفری نمازایک ساتھ اداکرلیتے ہیں”وقوف عرفات”سے مراد عرفات کے میدان میں نمازوں کی ادائیگی کے بعد قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوجانا اور دعائیں مانگناہے اس کے بعد غروب آفتاب کاانتظارکیا جاتا ہے لیکن مغرب کی نماز وہاں ادا نہیں کی جاتی آپﷺ نے غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے میدان میں مغرب اورعشاء اکٹھی ادا کی تھیں سب حجاج غروب آفتاب کے فوری بعد، پیدل یاسوار،مزدلفہ پہنچ کر دونوں قصرنمازیں اداکرتے ہیں ، اسی میدان سے تمام حجاج کرام شیطانوں کے مارنے کے لیے کنکریاں بھی چنتے ہیں اگلے دن 10ذوالحجہ ہے اور ساری دنیامیں عید قربان منائی جاتی ہے حاجی بھی قربانی کرتے ہیں اور حلق کرواکے احرام کھول دیتے ہیں اور بڑے شیطان کو کنکربھی مارتے ہیں اس کے بعد طواف زیارت کے حرم مکہ جاتے ہیں اور واپس منی میں آجاتے ہیں اگلے دن تینوں شیطانوں کو کنکرمارتے ہیں اورعصرسے قبل منی سے روانہ ہوجاتے ہیں اس طرح شریعت کاحج مکمل ہوگیا۔لیکن عشق کا حج مکمل کرنے کے لیے مدینہ منورہ جاتے ہیں، گنبد خضرا کادیدارکرتے ہیں،خدمت اقدس میں سلام عرض کرتے ہیں اور چالیس نمازیں بھی مسجد نبوی میں اداکرتے ہیں حج ایک مسلمان کی زندگی سے تکبر کو ختم کرنے کی ایک بہترین تربیت گاہ ہے۔ ایک حاجی شخص اپنے زرق و برق والے لباس کو اتار کر صرف دو سفید سادہ چادروں کو اپنے جسم پہ اوڑھ کر اللہ کی بڑائی کا مسلسل اعتراف کرتا ہے ہر بڑا و چھوٹا ،امیر و غریب، بادشاہ و وزیر، اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر ، اپنی مسکنت و تذلل اللہ کے آگے پیش کرکے اس بات کی تصویر ہوتا ہے کہ ہر قسم کی بڑائی و عظمت کا مالک صرف اللہ رب العالمین ہے مناسک حج کی تکمیل کے لئے واجب ہے کہ حاجی کا قلب مصفی ہو تمام برائیوں اور بدکاریوں سے ،اور یہ سفر مبارک و نیک ہو نا چاہئے۔