نائلہ رضوان
بقرعید کے دن قریب آرہے تھے۔ خذیمہ کی بڑی خواہش تھی کہ اس کی قربانی کی گائے جلد سے جلد آجائے، تاکہ وہ اسے گھمائے پھرائے اس کی دیکھ بھال کرے۔ وہ روز اپنے ابو سے کہتا کہ،’’ ابو بس آج گائے لینے چلیں ‘‘۔
’’ بھئ اتنی جلدی گائے لاکر کریں گے کیا، بس بقرعید سے دو دن پہلے لے آئیں گے ۔‘‘ ابو کا جواب سن وہ منہ بسور کر خاموش ہوجاتا
مگر بھئ خذیمہ نہ مانا بالآخر ایک دن ابو اپنے دونوں بیٹوں خذیمہ اور حذیفہ کو گائے منڈی لےجانے کو تیار ہوگئے ۔ ان کا کزن انس، جس کا گھر ان کی گلی میں ہی تھا وہ بھی پیچھے پڑ گیا کہ،’’ میں بھی چلوں گا ،‘‘ پھر اسے بھی ساتھ لیناپڑا۔ منڈی میں بڑی رونق تھی۔
اتنی ساری گائے دیکھ کر تو خذیمہ اور انس بہت خوش ہوئے۔ کافی دیر منڈی میں گھومنے پھرنے کے بعد بالاآخر سب کو ایک سفید گائے جس پہ تھوڑے سے کالے دھبے تھے پسند آگئی۔ بھاؤ تاؤ کر کے ابو نے پیسے ادا کیے پھر سوزوکی میں گھر لے آئے۔
گھر میں گائے کیا آئی کہ خذیمہ میں پھرتی آگئی کبھی وہ اسے چارہ کھلارہا ہوتا تو کبھی پانی پلاتا ، روز اسےنہلاتا بھی کیونکہ گرمی بہت تھی ۔ اس کے کزن انس اور ابرہیم بھی اس کے ساتھ لگے رہتے۔ خذیمہ نے اسے سجانے کے لیے بڑی پیاری پیاری چیزیں خریدیں ، گائے کےگلے میں رنگ برنگی ڈوریوں والی گھنٹی ڈالی جب وہ شام کے وقت گائےکو ٹہلانے لے جاتے تو چلتے ہوئےٹن ٹن کی آوا سب کو بھلی لگتی۔
اسکول کی تو گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، لہذا تینوں بچے گائے کے پاس کرسیوں پر بیٹھ کر اسے دیکھتے رہتے۔تھوڑی تھوڑی دیربعد اسےچارہ کھلاتے۔جب وہ نہیں کھاتی تو یہ پریشان ہو جاتے کہ وہ کھا کیوں نہیں رہی۔ ابو کہتے کہ،’’ارے بھئ اس کا پیٹ تو کھا کھا کر بھر گیا ہوگا، وہ کتنا کھائے گی، کیابس کھائے جائے۔‘‘
اسی طرح دن گزرتے گئے اور قربانی کا دن آگیا ۔سارے بچے اداس ہوگئے کہ، ان کی پیاری گائے قربان ہو جائے گی، مگر اللّٰہ کی راہ میں اپنی پیاری چیز ہی تو قربان کرتے ہیں اور اللّٰہ کو قربانی پسند بھی ہے۔ قربانی سے پہلے بچوں نے گائے کو پانی پلایا اسے خوب پیار کیا۔
اس کے بعد قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا، ایک حصہ غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کیا گیا، دوسرا حصہ رشتہ داروں میں اور تیسرا حصہ اپنے گھر کے لیے رکھا۔قربانی کی یہ سنت ہمیں ہمارے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد دلاتی ہے۔ کس طرح انہوں نے اللہ کے حکم کی بجا آوری کی تھی۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ قربانی کے عمل میں محبت ، تعاون اور خلوص کی روح شامل ہوتی ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے۔