• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہائیڈپارک … وجاہت علی خان
دُکھ تو امریکہ سے ہارنے کا پہلے ہی بہت تھا پھر انڈیا سے ہارے تو اس دُکھ میں ایک کروڑ درجے کا مزید اضافہ ہو گیا لیکن یہ دُکھ، گریہ زاری اور حزن و الم میں اُس وقت بدل گیا جب پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ سے آؤٹ ہوئی تو ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے میری 12 سال کی بیٹی جو میری وجہ سے کرکٹ میں دلچسپی لے رہی تھی نے اچانک کہا “ پاپا شیم آن یو “ اس پر یکدم میں نے چونک کر پوچھا بیٹی کیوں ، تو وہ ہنستے ہوئے بولی کیونکہ تم اس ٹیم کو سپورٹ کرتے ہو جو ہر وقت ہارتی رہتی ہے۔ بیٹی کو تو میں نے بہت سی تَوجِیہات دے کر سمجھا دیا کہ کسی بھی کھیل میں کسی ایک ٹیم کی ہار کسی کی جیت ہوتی ہے، ماضی میں پاکستان ورلڈ کپ سمیت کئی بڑے ٹورنامنٹ جیتا بھی تو ہے اور کرکٹ بائی چانس وغیرہ وغیرہ لیکن ایسی صورتحال میں ہم اوورسیز پاکستانیوں کے لئے زیادہ مسئلہ اس لئے بھی ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل پاکستان میں نہیں بیرونی ممالک میں پیدا ہوتی اور پروان چڑھتی ہے لیکن یہ بچے اپنے والدین کے آبائی ملک سے بھی کسی حد تک اُنسیت رکھتے ہیں، یہ بچے اس ملٹی کلچرل سوسائٹی میں دوستوں سے ملتے ہیں تو بڑی تعداد میں پاکستان کی ٹیم کو ہی سپورٹ کرتے ہیں اور جب پاکستان کی ٹیم کا میچ نہ ہو تو ہم سب انگلینڈ کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن جب پاکستان ٹیم بغیر فائیٹ کئے بُرے طریقے سے ہارتی ہے تو بچوں کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی اس قسم کی پے در پے ناکامیوں کا دفاع کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ ابھی پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ گیری کرسٹن نے ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور آئرلینڈ کے خلاف آخری میچ کے بعد کھلاڑیوں سے کھلے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیم کا فٹنس لیول معیاری نہیں اور نا ہی ’’اپ ٹو دی مارک ہے‘‘، ہم اسکلز لیول میں بھی دُنیا سے بہت پیچھے ہیں، اتنا تجربہ ہونے کے باوجود بھی کون سا شارٹ کب کھیلنا ہے یہ بھی ان کھلاڑیوں کو پتا نہیں، گیری کرسٹن نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی ٹیم صرف کہنے کو ٹیم ہے، درحقیقت یہ ٹیم ہے ہی نہیں، میں جب سے آیا ہوں یہی نوٹ کیا ہے کہ اس ٹیم میں اتحاد نہیں، کوئی کھلاڑی کسی کو سپورٹ نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا میں کئی ٹیموں کے ساتھ کام کرچکا ہوں لیکن ایسی صورتحال کہیں نہیں دیکھی، کھلاڑی اسکلز لیول میں دوسرے ملکوں کی ٹیموں سے بہت پیچھے ہیں، ان میں مطلوبہ فٹنس بھی نام کو نہیں۔ دُنیا ئے کرکٹ کے مایہ ناز فاسٹ باؤلر اور ریورس سوینگ کے موجد سرفراز نواز نے ابھی تین روز پہلے لندن میں میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اسی قسم کے افسوس کا اظہار کیا کہ گیری کرسٹن نے درست تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ٹیم میں ان مسائل کے ساتھ ساتھ مینجمنٹ میں اور کھلاڑیوں میں جوأ گروپ کی مضبوطی بھی انتہائی خطرناک اور توجہ طلب ہے، سرفراز نواز کی یہ دلیل بھی باوزن معلوم ہوتی ہے کہ ٹیم کی بربادی کا ایک بڑا ذمہ دار عمران خان بھی ہے جس نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے اور کُلی اختیارات کے باوجود بھی کرکٹ بورڈ میں اصلاحات لانے اور ٹیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے ادارہ جاتی کرکٹ یا ایسوسی ایشنز کرکٹ پر پابندی لگا دی، کلب کرکٹ بند کردی اور چھ ریجنل ٹیمیں بنا دیں جو چار سال تک چلتی رہیں ، جوأ بھی عروج پر رہا اور اقربا پروری بھی ، اسی دور میں انڈر 19 کرکٹ کا خاتمہ ہوا حالانکہ ماضی میں عمران خود اس کی دُہائی دیا کرتا تھا کیا اُس کا یہ آسٹریلین ٹائپ کرکٹ کا تجربہ ناکامی اور بحثیت مجموعی ٹیم کی بربادی کا باعث نہیں بنا ، اسی لئے ہماری ٹیم کی ہزیمت، ٹوٹ پھوٹ، پھٹاؤ، شکستگی کی کہانی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ آپ غور کریں کہ ہم اپنے گھر میں نیوزی لینڈ سے ہارے، ایشیا کپ ہارے، آسٹریلیا میں ہارے، حالیہ انگلینڈ میں ہارے اور پھر امریکہ میں انتہائی بے عزتی سے سُپر ایٹ میں بھی نہ پہنچ سکے ! سرفراز نواز صاحب کے مذکورہ خدشات درست بھی ہیں اور قابل غور بھی جن پر ’’پی سی بی‘‘ اور پاکستان کی کرکٹ پر ڈسکریشن رکھنے والوں سمیت وزیر اعظم پاکستان کو بھی فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے کہ کرکٹ ہو یا دوسرے کھیل ان سے انتہا پسندوں کو دور رکھیں، ایک اور بات جو سب سے ضروری ہے کہ جونہی کوئی کھلاڑی قومی ٹیم کے لئے سلیکٹ ہو تو اسے فوری بیرون ملک بھیجنے سے پہلے اسے اخلاقی تربیت اور انگریزی زُبان کی بنیادی تربیت لینا لازمی قرار دیں۔ اس کی ایک مثال بابر اعظم کے حالیہ دورہ انگلینڈ اور دورہ امریکہ میں فینز کے ساتھ بدتمیزی پر مبنی رویے کی دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ روز روشن کی طرح کُھلی حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتہ کوئی 15سال سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں اسٹریٹجک تحریک،مثبت جوش و جذبہ اورخوابوں ،خیالوں، دُعاؤں یا خواہشوں کی دنیا میں رہنے کا رحجان زیادہ اور عملیت پسندی کا شدید فقدان دکھائی دیتا ہے، یہ کھلاڑی کسی مضبوط حکمت عملی اور اپنی مہارت سے میچ جیتنے کی بجائے آفاقی طاقتوں کےبھروسے میدان میں اُترتے ہیں ان کی باڈی لینگویج سے یہ لگتا ہی نہیں کہ یہ کھلاڑی ہیں اور ہارنے نہیں آئے، یہ میدان میں داخل ہوتے ہی شو آف کے لئے ہاتھ اُٹھا کر غیبی امداد کے لئے گِڑْگِڑانے لگتے ہیں اور یکسر بھول جاتے ہیں وہ کھیل کے میدان میں آئے ہیں اور یہاں کامیابی اُسی کی ہو گی جس کی سٹریٹجی اور گیم سب سے بہتر اور نمبر ون ہوگی ورنہ ۲۵ کروڑ پاکستانیوں کی مُناجاتیں تو آپ کے ساتھ ہوتی ہی ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ دُنیا کی 108کرکٹ ٹیمیں “ آئی سی سی” کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 96 ایسوسی ایٹ اور 12 فُل ممبرز ہیں، چنانچہ مناجاتیں تو یہ بھی کرتے ہوں گے لیکن اپنے گھروں ، ہوٹلوں اور پویلین کے اندر نا کہ گراؤنڈ میں سجدہ ریز ہو کر دُنیا کو دکھانے کے لئے کھلاڑیوں کو کھیل کے میدان میں اپنی تماتر توجہ اعتقادی اِیْقان کی بجائے کھیل کے ہُنر آزمانے کی طرف رکھنی چاہئے،ہم کسی تبلیغی جماعت کے نہیں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ایک رُکن ہیں اور آپ کی جیت کیلئےکروڑوں انسانوں کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کی بُری کارکردگی اوورسیز پاکستانیوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے کیونکہ یہاں ہمیں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیز کے طنزیہ تیر و تُفَنگ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور اپنے بچوں سے “ شیم آن یو “ بھی سُننا پڑتا ہے ۔
یورپ سے سے مزید