تحریر: مفتی عبدالمجید ندیم… برمنگھم
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان بنانے کی مخالفت کی اور وہ ہر گز متحدہ ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ اسی حوالے سے گذشتہ 70سال سے جماعتِ اسلامی کے خلاف مہم چلانے والے افراد اسے ایک مؤثر ہتھیارکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اکثر وبیشتر کہا جاتا ہے کہ جماعتِ اسلامی، اس کی قیادت اور کارکنان کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطا لبہ کریں حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان بننے کے شدید مخالف تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کی کوئی ٹھوس علمی بنیاد نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ایک کنفیوژن پھیلانے، سید ابولاعلیٰ مودودیؒ کو بدنام کرنے اور اسلامی نظام کے مطالبے سے دور کرنے کی ایک سوچی سمجھے سازش ہے جسے گذشتہ70سال میں ہر پلیٹ فارم پر استعمال کیا گیا ،سب سے پہلے اس بات کو جان لیجئے کہ متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی تہذیبی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی غلامی کے دور میں جن شخصیات نے بیداری ملت کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں ان میں شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبالؒ کا نام سر فہرست ہے۔ علامہ اقباللؒ نے جہاں اپنی شاعری کے ذریعے ایک مردہ قوم کے تنِ مردہ میں جان ڈالی وہیں پر انہیں ایک ایسے فرد کی تلاش تھی جو اس عظیم کام میں ان کی مدد کر سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت متحدہ ہندوستان میں چوٹی کے علماء و مشائخ موجود تھے لیکن علامہ اقبالؒ کی نظر نوجوان مودودیؒ پر پڑی۔ انہی دنوں ایک دردمند مسلمان چوہدری نیاز علی خاں (م:24فروری 1967ء) نے اپنی جائیداد واقع جمال پور، پٹھان کوٹ ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کیلئے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا،مولانا مودودی ؒنے علمی کام کا ایک تفصیلی نقشہ بناکر چوہدری نیاز کو پیش کیا۔ چوہدرینیاز نے اس علمی منصوبے سے علّامہ اقبال کو آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور فرمایا کہ اس وقت کرنے کے کام یہی ہیں۔ (سیّارہ، لاہور، اقبال نمبر 1963)چنا نچہ انہی کے مشورے سے سید مودودیؒ پٹھا ن کوٹ منتقل ہوئے۔ مسلم لیگ کا قیام جن حالات میں ہوا تھا اس میں ہرطرح کے افراد شامل ہو چکے تھے۔ ان افراد کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔یہ افراد قیامِ پاکستان کی تحریک میں تو اہم کردار ادا کر سکتے تھے لیکن ایک مستحکم ریاست کو پروان چڑھانے میں ان کی تعلیم وتربیت کی اشد ضرورت تھی۔مولانا مودودیؒ نے اکتوبر1937میں علامہ اقبالؒ سے لاہور میں اہم ترین ملاقات کی اور جو مسائل زیرِ بحث رہے ان کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان فرمایا’’مسلم لیگ کے مرکز پر جو طاقتیں جمع ہورہی ہیں، ان کے بنیادی نقائص کو دُور کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے تصورات میں جو ابہام اس وقت پایا جاتا ہے، اس کو دُور کیا جائے تاکہ واضح طور پر اس موجودہ پوزیشن کوسمجھ لیں اور اپنی ایک قومی غایت متعین کرلیں۔ یہ چیز جتنی زیادہ واضح ہوتی جائے گی، اتنی ہی تیزرفتاری کے ساتھ عامۃ المسلمین کا ترقی پسند اور اقدام پسند عنصر مسلم لیگ کی صفوں میں آگے بڑھتا جائے گا، اورخودغرض،نمایشی اور آرام طلب عناصر پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے وہ تمام بے چین عناصر جو محض مسلم لیگ کی بے عملی سے بے زارہوکر مختلف راستوں پر بھٹک گئے ہیں، رفتہ رفتہ پلٹنے شروع ہوجائیں گے اور تھوڑی مدت بھی نہ گزرے گی کہ یہ جماعت جمہور مسلمین کی ایک مرکزی جماعت بن جائے گی‘‘۔ سردست ہم مسلم لیگ سے، اس سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ غیراسلامی نظامِ سیاست میں مسلمانوں کی قومی پوزیشن کو بیش از بیش محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ہمارے لیے صحیح پالیسی یہ ہے کہ rear guard میں رہیں اور ایک طرف تو اپنے خیالات کی اشاعت سے مسلم لیگ کو بتدریج اپنے نصب العین کے قریب تر لانے کی کوشش کرتے رہیں اور دوسری طرف مردانِ کار کی ایسی طاقت ور جماعت تیار کرنے میں لگی رہیں جو دارالاسلام کی فکری بنیاد بھی مستحکم کرے اور اس تصور کو جامہ عمل پہنانے کیلئے بھی مستعد ہو۔ جب تک یہ انقلابی جماعت میدان میں آنے کیلئے تیار ہوگی، اس وقت تک ان شاء اللہ میدان ہموار ہوچکا ہوگا کیونکہ انقلابی تصورات کی تبلیغ سے ہم پہلے ہی مسلمانوں کے کارکن اور کارفرما عناصر کو اپنے سے قریب تر لاچکے ہوں گے‘‘۔ (خطوطِ مودودی، دوم، ص 198تا204) ان تمام شواہد سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ علامہ اقبالؒ اور سید ابولاعلیٰ مودودیؒ کا پروگرام یہ تھا کہ ایک طرف تو مسلم لیگ قیامِ پاکستان کے لیے سیاسی جدوجہد کرے اور دوسری طرف ایک ایسا لٹریچر تیار کیا جائے جو مسلمانوں کو ان کا دینی و ملی تشخص قائم کرنے میں مدد فراہم کرے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریکِ پاکستان کی بنیاد ’’نظریہ پاکستان‘‘ ہے۔اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ان کا دین،ان کی تہذیب و ثقافت اور ان کا رہن سہن دوسری اقوام سے مختلف ہے لہٰذا انہیں اپنی دینی اقدار پر آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے لیے ایک الگ خطہ زمین کی ضرورت ہے۔ چنانچہ یہی وہ مرحلہ تھا جب متحدہ ہندوستان میں یہ مسئلہ پوری شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا کہ ’’قومیں وطن سے بنتی ہیں یا ان کی بنیاد ایما ن وعقیدہ ہوتا ہے۔یہی وہ مرحلہ تھا جب علمائے ہند کی ایک بڑی تعداد یہ نکتہ نظر پیش کررہی تھی کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔یہ علماء معاشرے میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے تھے لہٰذا ان کی بات کا جواب دینے کے لیے مسلم لیگ میں کوئی بھی مؤثر شخصیت موجود نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کا بیڑا سید مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اٹھایا اور دو عظیم الشان کتابیں تحریر فرمائیں جنہوں نے مسئلہ قومیت کو اس قدرواضح کیا کہ ہر طرح کے شکوک و شبہات دور ہو گئے۔یہ کتابیں ’’مسئلہ قومیت‘‘ اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکشʼʼ ہیں۔ان کتابوں کی اثر آفرینی کی وجہ سے مسلم لیگ نے انہیں متحدہ ہندوستان کے طول وعرض میں مفت تقسیم کیا۔ اس طرح ہم جان سکتے ہیں کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تحریکِ پاکستان کی فکری آبیاری کی۔جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی پاکستان کی جانب ہجرت فرمائی۔ پورے ہندوستان سے آنے والے قافلوں کی خدمت جس طرح جماعتِ اسلامی اور اس کے کارکنان نے سرانجام دی تھی اسے اپنے ہی نہیں غیر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ قائد اعظم نے 1930ء کے بعد اپنے تمام خطبات اور بیانات میں ایک ہی بات کو پیش کیا کہ مسلمان اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی تاریخ، اپنے نام وَر مشاہیر کے لحاظ سے ہندوؤں سے بالکل مختلف ہونے کی بنا پر ہر لحاظ سے ایک مکمل اور الگ قوم ہیں، جو زمین، رنگ اورنسل کی قید سے آزاد اور صرف اور صرف عقیدہ و ایمان کی بنا پر ایک قوم ہیں، اور ان کے دین کا تحفظ صرف اور صرف اسی شکل میں ہو سکتا ہے، جب وہ آزادانہ طور پر اپنے نظام حکومت، نظام معیشت، نظام معاشرت، نظامِ قانون، نظام تعلیم غرض زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کی بنیاد پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہوں۔ چنانچہ جب پاکستان بن گیا تو قائدِ اعظمؒ نے اس مقصد کے عملی حصول کیلئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے مدد طلب کی اور انہیں فرمایا کہ اسلام کا واضح تصور پیش کرنے کیلئے آپ ریڈیو پاکستان پر جامع تقاریر ارشاد فرمائیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جنوری 1948 ان تقاریر کا سلسلہ شروع فرمایا۔ یہ پانچ اہم ترین خطابات ہیں جو اسلام کے اخلاقی، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور روحانی نظام کے بارے میں ہیں۔ ان تمام تقاریر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو ’’ایک نظام‘‘ کے طور پر پیش فرمایا اور دلائل کے ساتھ اس بات کو ثابت فرمایا کہ پاکستان کی بقا اور استحکام کی ضمانت اسلام کا عادلانہ نظام ہے۔اس کے علاوہ تقاریر کا ایک دوسرا سلسلہ جو ’’نشری تقریریں‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے اسلام کے بہت سے پہلوؤں کو واضح کرتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے واضح فرمایا کہ پاکستان کی حیثیت ہمارے نزدیک’’مسجد‘‘کی ہے لہٰذا ہم اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔یہ بات ایک حقیقت کے طور پر جانی جاتی ہے کہ پاکستان کو دستوری طور پر ’’قرار داد مقاصد‘‘ کے ذریعے ایک اسلامی مملکت بنانے کیلئے بنیاد فراہم کرنے کا کام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور دوسرے علمائے کرام نے سر انجام دیا ہے جس کے مطابق ’’اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا‘‘۔ اور ’’جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں‘‘۔