• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موئن جودڑو سے خواتین کے جتنے بھی مجسمے ملے ہیں، ان کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی عورتیں بناؤ سنگھار کی بہت دلدادہ اور باذوق تھیں۔ زیورات کا کثیر استعمال تو اپنی جگہ، لیکن بالوں کی آرائش کے جو نمونے ملے، وہ بے حدحسین ہیں۔ ویسے بھی عورت کی فطرت میں زیبائش و آرائش پھول میں خوشبو کی سی اہمیت رکھتی ہے۔ 

اس فطرت نے انسانی نفسیات کی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے عورت کو خودبین، خودنمائی اور خود آرائی سکھائی۔ اس جذبہ زیب و زینت نے عورت کے تصور کو ایک نکھار بخشا اور اس میں ایک نمایاں کشش پیدا کی، جس نے دنیا کی تمام زبانوں کے شاعروں کے تخیل کو ہزاروں سال تک اسیر دام رکھا۔

بال سنوارنے کے انداز کی ابتداء عہد پارینہ کی نامعلوم داستانوں میں کہیں گُم ہوگئی ہے ۔ لیکن گمان یہ ہوتا ہے کہ جب پہلے پہل عورت میں احساس جمال پیدا ہوا اور اس نے اپنے ظاہری حُسن اور کشش میں اضافہ کرنا چاہا تو اس نے اپنے بالوں کو سنوارنا اور سجانا شروع کیا۔ وادیٔ سندھ میں نسائی زلفوں کی آرائش کی تاریخ کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب سندھ کی قدیم ترین تہذیبوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جن میں ایک تہذیب ’’موئن جودڑو‘‘ کے نام سے منسوب ہے۔

تاریخ عالم کے پہلے باب میں دریائے نیل کی وادی کا زرخیر ملک مصر اور دجلہ و فرات کے ڈیلٹا ہی عرصہ دراز تک مہذب انسانوں کی پیدائش کے مقام تصور کئے جاتے تھے ۔ لیکن بیسویں صدی کے پہلے چوتھائی حصے میں لاڑکانہ کے قریب دریائے سندھ کے کنارے ایک علاقے میں کھدائی کے ذریعے ایک انتہائی عظیم الشان تاریخ دریافت ہوئی۔ اس بازیافت نے سندھ کی قدیم ترین ’’موئن جو دڑو‘‘ تہذیب کی نقاب کشائی کی۔ یہ تہذیب مصر، چین اور میسو پوٹیمیا کی قدیم تہذیبوں کی ہمعصر خیال کی جاتی ہے۔ 

اس تہذیب کی باقیات نے ہمیں اس زمانے کی زندگی کے ہر شعبہ کی بہت ساری واقفیت عطا کی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو پرانی چیزیں خصوصاً ٹوٹی پھوٹی عمارتیں زمانے کے جھٹکے کھا کر بچ رہی ہیں، ان کا ہر ذرہ زبان حال سے عہد رفتہ کی داستان سناتا ہے۔ لیکن اس زبان کا سننا اور سمجھنا ہر ایک کا کام نہیں، اس کیلئے غیرمعمولی ذہانت اور نظر کی ضرورت ہے۔ بڑے صبر اور محنت سے ماضی کی یہ نشانیاں تلاش کی جاتی اور ان کی اصلیت کا پتہ چلایا جاتا ہے اور پھر بڑی دیدہ ریزی سے باریک سے باریک کڑیاں جوڑ کر واقعات کا سلسلہ تیار کیا جاتا ہے۔ 

یہ زنجیر جو آثارِ قدیمہ کے ماہر اورمؤرخ کی متفقہ کوشش سے بنتی ہے، حال کو ماضی سے ملا کر خواب ہستی کے منتشر اجزاء میں ربط پیدا کر دیتی ہے۔ اس مختصر مضمون میں موئن جو دڑو سے برآمد شدہ مٹی، پتھر اور کانسی کی بنی ہوئی مورتیوں کے ذریعے اس تہذیب کی دوشیزاؤں کے بال سنوار نے کے انداز کا ایک عمومی جائزہ نذر قارئین ہے۔ اس زمانے کی دوشیزائیں اپنے بال مختلف انداز سے سنوارتی تھیں۔ 

بالوں کو کنگھی سے پیچھے لاکر چھوڑنے کا سب سے آسان طریقہ مروج تھا۔ اس سے زلفیں سر کے پیچھے لٹکتی رہتی تھیں۔ عموماً پیچھے ڈالے ہوئے بالوں میں ایک آسان سی گرہ ڈالی جاتی تھی۔ بالوں کو سمیٹ کر سر کے پیچھے ایک فیتے سے باندھنے کا رواج بھی تھا۔ اس ڈھنگ سے سنوارے ہوئے بال نیچے لٹکے رہتے تھے اور اکثر پونی ٹیل (Pony Tail) کی لچھے دار شکل میں دکھائی دیتے تھے ۔

آج کل کی خواتین کی طرح اس زمانے کی دوشیزائیں بھی یقیناً وقت کی روش کے ساتھ ساتھ زلفوں کی آرائش کے نت نئے انداز ایجاد کرتی رہی ہوں گی۔ اس زمانے کی مورتیوں کے سنوارے گئے بالوں کے انداز سے اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جیسے آج فیشن بدلتا رہتا ہے، اس وقت بھی بدلتا رہا ہوگا، جس کا اثر خم کا عمل پر ضرور پڑا ہوگا۔

موئن جو دڑو کی عورتیں بالوں کو کنگھی سے اس انداز سے پیچھے کرلیا کرتی تھیں کہ سر کے اوپر ایک چھلا سا بن جاتا تھا اور بقیہ بال نیچے گردن تک لٹکتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی اس کے ساتھ ساتھ سر کے چاروں اطراف ایک فیتہ باندھ کر بال پیچھے کر دیئے جاتے تھے، جو اسی انداز سے لٹکتے رہتے تھے۔ بالوں کو سمیٹ کر سر پر پگڑی کی طرح لپیٹنے کا ڈھنگ بے حد اور مختلف تھا۔ اس انداز کو دیکھتے ہی موجودہ سندھی انداز کا عورتوں کے سجے ہوئے بالوں والا سر آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔

بالوں کی چوٹی بنانے کا رواج بھی موجود تھا۔ اکثر عورتیں دو چوٹیاں بنا تی تھیں، جو سامنے کندھوں پر لٹکتی رہتی تھیں۔ آج کے اسکول اور کالج کی طالبات میں بھی یہ انداز بیحد مقبول ہے۔ اپنی خواہش کے مطابق موئن جودڑو کی عورتیں ایک سے چار تک چوٹیاں بناتی تھیں، لیکن عام طور پر ایک چوٹی کا ہی رواج ہوگا، کیوں کہ اس میں وقت کم صرف ہوتا ہے۔ ایک چوٹی سر کے بائیں طرف ہوتی تھی، جو کان کے پاس ہی لٹکتی رہتی تھی۔

عورتوں میں بال ترشوانے کا بھی رواج تھا۔ اس طرح تر شے ہوئے بال چوٹی کی شکل میں بنالئے جاتے تھے اور ان چوٹیوں کو سر کے اوپر دگنا کرکے ایک فیتے سے باندھ لیا جاتا تھا ۔ کچھ عورتیں دو چوٹیوں کی ایک چوٹی بنا کر سر کے اوپر باندھ لیا کرتی تھیں اور بالوں کو اس طرح سنوارا جاتا تھا کہ دو چوٹیاں سامنے کی طرف کندھے پر لٹکتی رہتی تھیں اور باقی دو چوٹیاں سر کے پیچھے لے جا کر باندھ لی جاتی تھیں۔ 

بالوں کو سنوارنے کا ایک عجیب انداز یہ بھی تھا، جس میں بالوں کی کچھ لٹیں چھوڑ دی جاتی تھیں، جبکہ بقیہ بالوں کا سر کے پیچھے جوڑا بنالیا جاتا تھا،صرف جوڑا بنانے کا بھی رواج تھا۔ اس کے علاوہ سر کے اوپر چھوٹے چھوٹے چھلے دار بال بنائے جاتے تھے اور بقیہ بالوں کی لمبی سی چوٹی سر کے بائیں طرف بنائی جاتی تھی ، اسے سر کے پیچھے سے لا کر داہنے کندھے پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔

آرائش خم کے عام طریقوں کے علاوہ ایک انداز اور تھا، جسے اختیار کرنے والی خواتین بالعموم دولتمند گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس میں ایک ڈھانچے کی ضرورت پڑتی تھی،جس کو سر پر ٹوپی کی طرح پہن لیا جاتا تھا، پھر اس کے اوپر سر کے پیچھے لٹکے ہوئے بالوں کی نئی چوٹیاں بنائی جاتی تھیں، جوھانچے پر سر کے نیچے سے لاکر سامنے، دائیں اور بائیں طرف ڈال دی جاتی تھیں ۔

موجودہ دور میں سندھی عورتوں کی آرائش خم کا کل اور بال سنوارنے کے مختلف انداز جیسے سیدھے لٹکے ہوئے بال رکھنا یا ترشو ا دینے کا فیشن پڑھی لکھی خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ بالوں کو کنگھی سے پیچھے لے جا کر ایک چوٹی بنانے کا رواج بھی عام ہے۔ گاؤں دیہات میں عمر رسیدہ عورتیں آج بھی دو چوٹیاں بناتی ہیں۔ سندھ کے پہاڑی علاقوں خصوصاً کھیر تھر سلسلہ کوہ کم گاؤں میں چھوٹی لڑکیاں دو سے چار چوٹیاں کرتی ہیں۔ 

سر کے پیچھے بالوں کا جوڑا بنانے کا رواج متوسط طبقے کی خواتین میں عام ہے۔ بالوں کو سنوار کر سر کے پیچھے فیتے یا ربن سے باندھنے کے انداز کو پونی ٹیل اسٹائل کہتے ہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیاں اس اسٹائل کو زیادہ اختیار کرتی ہیں۔ دراصل بالوں کو سنوارنے کے مختلف النوع انداز سے عورت کی رنگا رنگ فطرت کا اظہار ہوتا ہے۔ 

بالوں کے انداز سے ان کی نفسیات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ موئن جو دڑو سے ملی ہوئی مورتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ بالوں کو سنوارنے کا یہ ڈھنگ اور دوسرے مختلف انداز جو آج بھی اسی طرح رائج ہیں، ان کی ابتدا موئن جو دڑو میں امکانی طور پر آج سے تقریبا پانچ ہزار سال پہلے ہوئی تھی۔