گلاسگو (طاہر انعام شیخ) سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ پاکستان کا نیا بجٹ بھی سابقہ بجٹوں کی طرح ہی ہے جس میں غریب عوام کیلئے کوئی ریلیف اور ٹیکسوں کے نظام کو مضبوط کرنے کیلئے کچھ نہیں ۔ اس بجٹ کے نتیجے میں مہنگائی اور بڑھ جائے گی۔ گلاسگو میں جنگ اور جیو کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے چوہدری محمد سرور نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں توانائی کا بحران پایا جاتا ہے لیکن ہماری حکومت کے پاس اس سے نمٹنے کے لئے کوئی موثر سٹریٹجی نہیں۔ اب پوری دنیا 2030تک آلودگی سے پاک انرجی کے لئے کام کر رہی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کہ جہاں بہت کم سورج نکلتا ہے یہاںپر بھی حکومت سولر انرجی ونڈمل اور سی بیڈ Sea Bed میں جنریٹر لگا کر بجلی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ہمارا ملک جہاں سورج پوری آب و تاب سے چمکتا ہے اور ہمیں بجلی کی شدید ضرورت بھی ہے ، ہم پاکستان میں سولر انرجی کے پینل بنانے کی کوئی فیکٹری بھی نہیں لگا سکے ۔ ملک میں روزگار کے حصول کے لئے جو صنعتیں لگنی چاہئے تھیں وہ نہیں لگ رہی ہیں بلکہ کئی پرانے روزگار بھی ختم ہو رہے ہیں اور اس وجہ سے حکومت اور عوام کے درمیان بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔ بجٹ میں طاقتور اور امیر طبقے پر ٹیکسز لگا کر غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہئے تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ قومی سطح پر براہ راست ٹیکس لگانے کے بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکس کا بوجھ ایک عام کمزور آدمی پر منتقل ہو جاتا ہے جو پہلے ہی دو وقت کی روٹی کمانے میں مشکلات کا شکار ہے۔ اس سوال پر کہ کیا پاکستان میں موجودہ غیریقینی کی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کا مل کر بیٹھنا ضروری ہے تاکہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آسکے، چوہدری محمد سرور نے کہا کہ ملک کا مفاد اسی بات میں ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور سٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور پاکستان اور اس کے عوام کے مستقبل کوبہتر بنانے کے لئے بات کی جائے۔ 75 سال گزر چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم ابھی تک الیکشن کا کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکے جو کہ صاف و شفاف ہو۔ میں اس وقت برطانیہ میں تمام سیاسی جماعتوں کے لوگوں سے ملا ہوں لیکن کسی نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر نہیں کہا کہ ملک میں جو الیکشن ہوئے ہیں وہ شفاف ہوئے ہیں۔ یہ صورتحال ہماری ملک و قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ میں برطانیہ میں اپنے خاندان اور دوستوں کو چھوڑ کر ایک بڑی سوچ کے ساتھ پاکستان گیا تھا لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ مجھے وہاں کی صورتحال سے مایوسی ہوئی۔ پاکستان میں سیاست دان اور دیگر اعلیٰ حکام بخوبی جانتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں نظام کیسے چلتا ہے کس طرح کسی بڑے سے بڑے آدمی کا محاسبہ کیا جاتا ہے، لیکن کوئی بھی برسراقتدار جماعت ان نظاموں کی اچھی باتوں کو رائج کرنے کو تیار نہیں کیونکہ اس سے وہاں 5 یا 10فیصد اشرافیہ کے اقتدار کو خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کو سب سے پہلے خود اپنی پارٹیوں میں جمہوریت قائم کرنی چاہئے۔ مغربی ممالک میں کوئی بھی لیڈر انفرادی طور پر ناگزیر نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی نے گزشتہ چند سال میں کئی لیڈر تبدیل کئے ہیں لیکن نظام بدستور چل رہا ہے کوئی پہاڑ نہیں گرا، یہاں پر طاقت نچلی سطح پر ہے۔ پارٹی سربراہ کسی ممبر پارلیمنٹ کو تو کجا کسی بھی ڈمی ممبر کو بھی نامزد نہیں کر سکتا، تمام چنائو حلقے کے پارٹی ممبران کرتے ہیں۔ پاکستان میں تو شیڈو کیبنٹ تک نہیں بنائی جاتی۔ برطانیہ میں چند سال قبل چند ممبران پارلیمنٹ نے چند سو یا چند ہزار پونڈوں کی غیر ضابطگیاں کی تھیں، ان تمام کو فارغ کر دیا گیا اور چند کو جیلیں بھگتنا پڑیں۔ یہاں 75 سالوں سے ملک کو لوٹا جا رہا ہے ، اربوں روپے بیرون ملک منتقل کرکے وہاں شاندار جائیدادیں بنائی گئی ہیں، کرپشن ایک ایسا ناسور بن گیا ہے جو ملک کے نظام کو دیمک کی طرح کھا کر کمزور کر رہا ہے، تقریباً ہر آدمی چاہے وہ سیاستدان ہے، بیوروکریٹ ہے، تھانیدار ہے یا پٹواری، صبح یہ سوچ کر گھر سے نکلتا ہے کہ لوگوں کو اور ملک کو زیادہ سے زیادہ کیسے لوٹنا ہے۔ غریب عوام ، بیوہ عورتوں اور اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، ہم سب کو اپنے رویئے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔