ادیب کا تعارف کہانی کا انتخاب۔ علی حسن ساجد
بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول میرزا ادیب کا حقیقی نام دلاور علی تھا۔چھٹی جماعت میں تھے تو ہلکے پھلکے شعر کہنے لگے۔ بچوں کے لئے ڈیڑھ درجن سے زائد ناول، کہانیاں اور ڈراموں کی کتابیں تصنیف کیں، ان کی کہانیوں میں ایثار اور حسن سلوک کا جذبہ ملتا ہے وہ بچوں کے لئے لکھتے ہوئے خود بھی بچہ بن جایا کرتے تھے۔
اپنی کہانیوں سے قارئین کو نہ صرف محظوظ کرتے بلکہ مظلوم کرداروں کو اس طرح اجاگر کرتے کہ بچے انہیں پڑھ کر غیر شعوری طور پر خلوص اور ہمدردی کا جذبہ محسوس کرنے لگتے ۔’ چاچا چونچ ‘،بچوں کے لئے ان کاپہلا مزاحیہ ناول تھا جو بہت مشہور ہوا۔
دیگر ناولوں میں’ شہر سے دور‘ اور ’گڑیا کا گھر‘ بہت پسند کئے گئے۔ 1948ء میں ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کا ایک مجموعہ،’ تیس مار خان ‘بہت مشہور ہوا۔ لاہور ریڈیو سے ان کے دو سو سے زائد کہانیاں نشر ہوئیں۔’ کھجور کا باغ‘،’ چوتھا چور او’ر شرفوں کی کہانی ‘ان کی یادگار کہانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔
انہوں نے اردو ادب میں بھی گرانقدر اضافہ کیا، مٹی کا دیا، صحرانورد کے خطوط، صحرانورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، متاع دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، حسرت تعمیر، شیشے کی دیوار وہ قابل ذکر تصانیف ہیں جو اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔
ان کی خدمات کے صلے میں انہیں کئی ادبی اعزازات کے علاوہ حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیا۔ میرزا ادیب کا 31 جولائی 1999 انتقال ہوا۔ پیارے بچو! ہم نے آج آپ کے پسندیدہ میرزا ادیب کی کہانیوں میں سے ایک کہانی’’ چاچا صدر دین‘‘ آپ کے لیے منتخب کی ہے۔
ہماری زندگی میں بعض ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں، جنہیں ہم بھلانا بھی چاہیں تو بھلا نہیں سکتے اور کبھی نہ کبھی ایسے شخص سے ہماری ملاقات بھی ہو جاتی ہے جو ہمارے دلوں میں اس طرح بس جاتا ہے کہ پھر نکلتا ہی نہیں۔ آج میں ایک ایسے ہی شخص کی کہانی سناتا ہوں۔
صدر دین کو میں نے پہلی بار اُس وقت دیکھا تھا جب وہ اپنے کاروبار میں خاصا کام یاب تھا۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک موچی تھا۔ جوتیاں تیار کرتا تھا اور کسی بڑے دُکان دار کے ہاں جا کر بیچ آتا تھا۔ اُس کی دُکان میں اس کا بھائی اور ایک شاگرد بھی کام کرتے تھے۔
جوتوں کی کمائی سے صدر دین نے اپنے لیے ایک دو منزلہ مکان خرید لیا ، اُس کی دُکان بھی اس کے مکان کے نیچے تھی۔
انسان کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ہر کمال کو زوال ہوتا ہے۔ ایسا ہی صدر دین کے ساتھ ہوا، اس کا کاروبار گھٹنے لگا، کیوں کہ بازار میں ہر جگہ بڑی بڑی فرموں کے بنائے ہوئے جوتے بکنے لگے تھے اور لوگ نئے فیشنوں کے جوتے خریدنے لگے۔
صدر دین کا گزارا کسی نہ کسی طرح ہو جاتا تھا۔ روکھی سوکھی کھا کر دکان پر بیٹھا رہتا تھا۔ اُس کے ساتھ ایک مصیبت یہ آئی کہ وہ بیمار ہوگیا۔ گھر میں جو کچھ تھا وہ اس کی بیماری پر خرچ ہو رہا تھا اور بیماری تھی کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔
وہ بڑا ہنس مکھ اور ہمدرد قسم کا انسان تھا۔ محلے کے ہر شخص کی عزت کرتا تھا اور بچوں سے تو اُسے بڑا ہی پیار تھا۔ کوئی بچہ اس سے اپنا جوتا بنواتا تو قیمت میں خاص رعایت کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بچے ہر روز اس کا حال پوچھنے کے لیے آجاتے تھے اور دیر تک اُس کے پاس بیٹھے رہتے تھے۔
صدر دین آہستہ آہستہ روبہ صحت ہونے لگا لیکن پوری طرح صحت مند نہ ہو سکا، تاہم اُٹھنے بیٹھنے میں اُسے اب کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔گھر میں کچھ رقم باقی تھی جس سے گھر کا خرچ چلانے لگا۔ دکان پر اُس سے دو تین گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں ہوپاتا تھا۔
بچے اس سے بہت خوش تھے اور کیوں خوش نہ ہوتے، وہ انہیں ہفتے میں دو دن چنے جو دیتا تھا، مگر بچوں کی خوشی برقرار نہ رہ سکی، جب انہوں نے سنا کہ چاچا کے رشتے دار اس کوشش میں ہیں کہ اس کا مکان بیچ کر اُسے اور اس کی بیوی کو اپنے گاؤں لے جائیں۔
چاچا کو اپنے رشتے داروں کی یہ تجویز پسند نہیں تھی، مگر اُنھوں نے سمجھایا کہ تم بیمار رہتے ہو، کاروبار ختم ہو گیا ہے، کیا کرو گے شہر میں رہ کر مکان بیچ دو۔ اچھی رقم مل جائے گی۔ اس رقم سے گاؤں میں زمین خریدکر ٹھیکے پر دے دینا،چاچا مان گیا۔
بچوں کو اُمید تھی کہ چاچا آخر دم تک شہر نہیں چھوڑے گا لیکن وہ تومان گیا تھا، اب کیا ہو سکتا تھا۔
چاچا مکان کی جتنی قیمت مانگ رہا تھا وہ اُسے مل نہیں رہی تھی، جب کہ رشتے دار مکان کو جلد سے جلد بیچنے پر زور دے رہے تھے۔ایک دن بچوں نے سنا کہ چاچا ایک آدمی کے ہاتھوں مکان فروخت کر رہا ہے۔گویا سارا معاملہ ختم ہو گیا تھا۔
’’اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ ایک لڑکے نے جس کا نام اکبر تھا محلے کے لڑکوں کو جمع کر کے پوچھا۔
”اب کیا ہو سکتا ہے۔ چاچا چلا جائے گا۔“ دوسرے لڑکے نے جواب دیا۔
پہلا لڑکا بولا، ”یہ تو ٹھیک ہے کہ چاچا چلاجائے گا، پر ہمیں بھی چاہیے کہ اُسے اپنی طرف سے کوئی تحفہ دے کر رخصت کریں۔“
”کیا تحفہ دیں؟“ ایک لڑکے نے سوال کیا۔
”میں سوچوں گا اور صبح بتاؤں گا۔“ اکبر بولا۔
دوسرے دن صبح کے وقت صدر دین ناشتہ کر رہا تھا کہ اکبر نے صدر دین کے دروازے پر دستک دی۔ صدر دین نے کھڑکی کھول کر نیچے دیکھا۔ اکبر کے ساتھ بہت سارے بچے نظر آئے۔انہیں اپنے گھر کے آگے دیکھ کر صدر دین فوراً نیچے آگیا۔
اکبر آگے بڑھا اور اس نے ایک بڑا سا تھیلا اس کے قدموں پر رکھ دیا۔
’’یہ کیا ہے؟“ صدر دین نے پوچھا۔
”چاچا! یہ کالے اور میٹھے چنے ہیں۔ پتا نہیں آپ کا سفر کتنا لمبا ہے۔ کھاتے ہوئے جایئے گا۔ چاچا! ہم آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکے‘‘۔
یہ کہتے ہوئےاکبر کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے گالوں پر بہنے لگے تھے۔ باقی بچے بھی بڑے اداس اور چپ چاپ کھڑے تھے۔
صدر دین دو تین لمحے خاموش کھڑا رہا، پھر اس نے اکبر کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اُس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے، مگر اس نے آنسوؤں کو بہنے سےروک لیا تھا۔
لوگ جو اُدھر سے گزر رہے تھے وہ بھی یہ منظر دیکھنے لگے۔صدر دین نے زبان سے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ تھیلا اٹھایا اور سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ لڑکے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ شام ہو گئی۔ پھر رات کا اندھیرا چھا گیا۔
صبح کے وقت بچے ناشتہ وغیرہ خریدنے کے لیے گھروں سے نکلے تو انہوں نے بڑی حیرت اور خوشی سے دیکھا کہ چاچا ایک کی جگہ دو تھیلے پاس رکھے اپنی دکان کے سامنے بیٹھا مسکرا رہا ہے۔
”چاچا! آپ گئے نہیں؟“بچوں نے پوچھا۔
’’نہیں بیٹا! میں نہیں گیا اور میں کبھی نہیں جاؤں گا ‘‘، جب وہ یہ لفظ کہہ رہا تھا تو اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔