• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باجماعت نماز میں صفوں کا اہتمام اور اُس کے آداب

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا دعویٰ ایمانی ہے کہ اسلام کامل و مکمل دین اورابدی ضابطۂ حیات ہے۔ جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے ۔دین اسلام جہاں زندگی کے ہر پہلو پر اصولی اسلامی تعلیمات و احکامات عطا کرتا ہے۔ وہاں تمام تر دینی و دنیاوی امور یعنی عبادات و معاملات کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ 

اسلام چونکہ قیامت تک کے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے زندگی گزارنے کا آخری و حتمی طریقہ ہے۔ اس لئے اس میں انسانی زندگی میں نظم و ضبط ، اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اسلام افراد امت کے لئے ایک تسبیح کی مانند ہے۔

اس تسبیح میں افراد امت میں سے ہر فرد کو یکجا سمیٹ کر رکھنا مرغوب ہے۔ ان افراد امت کے بکھر جانے کو ساری تسبیح کے دانوں کے بکھر جانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جیسے تسبیح کے دانے بکھر جاتے ہیں ،ایسے ہی امت بکھر جاتی ہے، جو کسی بھی طرح پسندیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومنوں کو جسدِ واحد کہا گیا ہے اور باہمی افتراق و انتشار سے بچنے کی تاکید کی گئی ۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ اور راستہ ’’نظم جماعت‘‘ کا قیام ہے۔

نماز باجماعت بھی نظم و ضبط اور اجتماعیت کا ایسا سبق ہے جو روزانہ پانچ بار دہرایا جاتا ہے۔ دن میں پانچ بار جب مسلمان مسجد میں اکٹھے ہوں تو اس شعوری احساس کے ساتھ مجتمع ہوں کہ ’’ہم ایک ہیں‘‘۔ ایک اللہ کے بندے ہیں اور خدائے واحد ہی کی عبادت کرتے ہیں۔ اس اجتماعیت کی اتنی اہمیت بیان کی گئی ہے، عین حالتِ جہاد میں بھی اسے ترک نہ کیا جائے۔ مسلمانوں کو یکسانیت و اجتماعیت اور جسدِ واحد کا شعوری احساس دلانے کے لئے ہر نماز میں اس سبق کی تکرار لازم قرار دی گئی کہ اپنی صفوں کو درست رکھو، کیونکہ صفیں درست رکھنا نماز کی تکمیل کا حصہ ہے‘‘۔ (صحیح بخاری) 

مزید یہ کہ نماز کے تمام ارکان و شرائط نظم کی واضح دلیل ہیں۔ اس نظم و ضبط کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ جب مسجد جایا جائے توجماعت کے حصول کے لئے دوڑ کر نہ جایا جائے، کیونکہ یہ جہاں وقار آدمیت اور سنجیدگی کے خلاف ہے ،وہاں صف کی درستی میں بھی خلل اندازی اور خرابی کا باعث ہے۔

نماز میں صف بندی کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صف بندی کرنے والوں کی عظمت و محبوبیت کی قسم کھائی۔ سورۃ الصافات میں ارشاد فرمایا ’’قسم ہے (درست) صف باندھ کر کھڑنے ہونے والوں کی‘‘ اب اگر ہم اس آیت میں مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کا صف بندی کی قسم اٹھانے کو ’’فرشتوں کی صف بندی‘‘ پر بھی محمول کریں تو پھر سوچئے کہ جب فرشتوں کی صف بندی کی عظمت کی قسم اٹھائی جا رہی ہے تو اشرف المخلوقات اورمسجودِ ملائک ’’انسان‘‘ اور وہ بھی مومن انسان کی صف کی کیا عظمت و برکت اور فضیلت و اہمیت ہوگی۔ قرآن کے بعد اگر ہم احادیث رسول ﷺ اور سنتِ رسولﷺ کا جائزہ لیں تو وہاں بھی ہمیں صف بندی کی تاکید نماز کی تاکید کی طرح نظر آتی ہے۔

اس تمہیدی گفتگو کا مقصد ان سطور میں نمازیوں کی اس غفلت ، سستی اور عدم توجہی کی نشان دہی مقصود ہے ،جو نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہوئے ہمارے مزاج کا حصہ بلکہ ہماری فطرتِ ثانیہ بن گئی ہے۔ ہم اقامت کے وقت نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہوئے اپنی جگہ ایسے جم جاتے ہیں کہ گویا ’’زمین جنبد، نہ جنبد گُل محمد ‘‘ اگر غور کیا جائے تو اقامت کا مقصد ہی مسجد میں موجود نمازیوں کو نماز کے قیام سے آگاہ کرنا ہے۔ تاکہ وہ صفوں میں اپنی اپنی جگہ لے لیں اور صف درست ہوجائے ،کیونکہ نماز کی تکمیل کے لئے صفوں کی درستی ضروری و لازمی ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ اقامت کے وقت نماز شروع کرنے سے پہلے حکم فرمایا کرتے تھے کہ ’’صفوں کو درست رکھو، اس لئے صف درست ہونے پر ہی نماز مکمل ہوتی ہے۔‘‘ یہاں اس بات کو وضاحت سے سمجھ لیں کہ نماز کا آغاز درست صف بندی سے ہوتا ہے ۔جب یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی صفیں درست کر لیں ، اللہ ہم پر رحم کرے۔ تو اس کی تعریف اور تشریح یہی ہے کہ ’’ صف سیدھی ہو ، کوئی بھی نمازی آگے پیچھے نہیں ہو، کاندھے سے کاندھا ملا ہوا ہو، کاندھوں کے درمیان بال برابر بھی فرق یا فاصلہ نہ ہو ۔ یہ الفاظ کہ اللہ تم پر رحم کرے۔ جہاں بہت خوش آئند اور بشارت آمیز ہیں، وہیں ان الفاظ میں بین السطور ایک بہت بڑی وعید بھی پوشیدہ ہے۔

صفوں کی درستی کا یہ اثر صرف نماز تک محدود نہیں ، بلکہ مسلمانوں کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی نظم و ضبط کی آئینہ دار ہے۔ نماز کی صفیں درست رہتی ہیں تو مسلمانوں کی زندگی کی صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی رہے گا۔ اسی کا نام رحم ہے اور اگر صفوں کی درستی کا اہتمام نہیں ہے تو مسجد سے باہر کی زندگی بھی اختلاف و انتشار کا شکار ہوگی ۔ دلوں میں نفرت و کدورت پروان چڑھے گی، اس لئے کہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے ۔

درست صف بندی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ رسول اللہ ﷺ نمازیوں کی صف میں صفوں کو اپنے ہاتھوں سے درست کیا کرتے تھے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز شروع کرنے سے صحابہ کرامؓکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرماتے تھے کہ سیدھے کھڑے رہو۔ آگے پیچھے مت رہو، کیونکہ ایسا کرنے سے تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوگا۔ (صحیح مسلم، ریاض الصالحین)

نماز میں وسوسوں اور شیطانی خیالات سے محفوظ رہنے کے لئے بھی صفوں کی درستی اور مل کر کھڑا ہونا ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:صفوں میں مل کر اور قریب قریب رہو، گردن کے ذریعے صف برابر کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ شیطان بکری کے بچے کی طرح صف میں خالی جگہ سے داخل ہوتا ہے۔‘‘(سننِ ابوداؤد)

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ خصوصی طور پر صف کی درستی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ بذات خود ہماری صفوں کو درست کیا کرتے تھے، صفیں اس طرح سے سیدھی ہوتیں کہ گویا اس کے ذریعے تیر سیدھا کر رہے ہوں ۔ (یعنی تیر کی طرح سیدھی) ایک روز آپ ﷺنماز کے لئے تکبیر ِ تحریمہ کہنے جا رہے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا ، اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ کے بندو ! تم ضرور اپنی صفوں کو سیدھا درست رکھو، ورنہ اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا کر دے گا۔ (مسلم ، ریاض، الصالحین)

روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں صفوں کی درستی کے لئے آدمی مقرر کئے ہوئے تھے جو آخری صف تک کو درست کرانے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو مطلع کرتے کہ یارسول اللہ ﷺ آخر تک صفیں درست ہو گئی ہیں، اس اطلاع اور اطمینان کے بعد کے آپ ﷺ نماز شروع فرماتے۔

قارئین کرام ! نماز میں صفوں کو مکمل کرنا، انہیں سیدھا کرنا، ان کے درمیان خالی جگہوں کو پُر کرنا اور صفوں میں مل کر کھڑے ہونا ضروری ہے۔ باجماعت نماز میں صف بندی کے بارے میں احادیث و روایات کاایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ہم بحیثیت امت ان آداب کو کس طرح نظر انداز کر رہے ہیں اور اس میں مقتدی اور امام دونوں برابر کے شریک ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی بحیثیت امام یہ سنت تھی کہ آپ ﷺاس وقت تک نماز شروع نہیں فرماتے، جب تک کہ صفیں درست نہ ہو جاتیں ۔ آج بد قسمتی سے ہم باجماعت نماز میں صف بندی کے آداب سے بڑی حد تک غافل ہیں۔

باجماعت نماز میں صف بندی کے حکم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر صف کے خلاء کو پُر کرنے کے لئے دائیں بائیں یا اگلی صف تک چلنا پڑے تو حالتِ نماز میں چل کر صف کے خلاء کو پُر کریں اور صف کو مکمل کریں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے’’ نماز میں اپنے بھائی کے ہاتھ میں موم کی طرح نرم ہو جاؤ ‘‘(حدیث مبارکہ) 

اندازہ کریں کہ آج ہم باجماعت نماز میں صف بندی کے ان احکام کو کس طرح سے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کررہے ہیں۔ ہمیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ صف کے درمیان خالی جگہ چھوڑنا انتہائی ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے اس پر شدید وعید ہے۔ اس سے جماعت ضائع ہو جاتی ہے اور جس کی جماعت ضائع ہو گئی ،اس کی نماز ضائع ہو گئی۔ اللہ ہمیں باجماعت نماز میں صف بندی کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔