تحریر: محمد عبداللّٰہ… کراچی پاکستان کی زیادہ تر آبادی دریاؤں کے کناروں اور اس کے مضافاتی علاقوں میں رہتی ہے جو مون سون کی بارشوں کے دوران سیلاب کی زد میں آتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوا اور سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث بخارات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گرم ہوا زیادہ نمی برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے مون سون کی بارش زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ اسی گلوبل وارمنگ کے چلتے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث شمالی علاقوں میں کوہساروں پر جمی برف کے تیزی سے پگھلنے اور دریاوں میں پانی کے اضافے کی وجہ سے طغیانی کے باعث سیلاب آتے ہیں۔ سیلاب کی دوسری بڑی وجہ طوفانی بارشوں کی شدت میں اضافہ ہے، جس کے باعث دریاؤں اور ندیوں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کی ذد میں آنے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ کاربن امیشن اخراج کے لحاظ سے پاکستان کا کاربن امیشن دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان دنیا میں ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو دو بڑے موسمی نظاموں کا خمیازہ بھگتتا ہے۔ ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی کا سبب بن سکتا ہے، جیسے ہیٹ ویو، اور دوسرا مون سون کی بارش لاتا ہے۔سال 2022پاکستان کو شدید مون سون بارشوں کے بعد ایک خطرناک سیلاب کا سامنا رہا اس سیلاب سے پاکستان کا کوئی صوبہ بچ نہ سکا، خیبر سے مہران یا پنجاب سے بلوچستان، ہر جگہ اس سیلاب کی تباہ کاریوں کے دردناک مناظر دیکھنے کو ملے۔ سیلاب کے باعث جہاں ہزاروں افراد کی اموات کا دکھ لئے لاکھوں لوگ اپنے گھر، گاؤں دیہاتوں کو چھوڑ کر نقل مکانی پہ مجبور ہوئے وہیں کوک سٹوڈیو کے گلوکار عبدالوہاب بگٹی کا گھر بھی سیلاب بہا لے گیا، عبدالوہاب بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوٹھ محمد عمر بگٹی کے ایک کچے مکان میں رہائش پذیر تھے جہاں سے انہیں سیلاب کے باعث اپنے خاندان کے ہمراہ محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی امداد اور بحالی لے لئے سرکاری سطح اور سماجی تنظیموں کی جانب سے مناسب انتظامات بھی کئے گئے، متاثرین کو سرکاری اسکولوں میں عارضی رہائش دی گئی جہاں ان کے کھانے پینے اور علاج معالجے کا انتظام کیا گیا۔پاکستان پچھلے کئی برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید موسمی حالات، جن میں سیلاب، خشک سالی، زلزلے اور طوفان جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں موسم کے مزاج تبدیل ہوئے ہیں جن کے باعث بن موسم برساتیں، مون سون کی بارشوں میں طغیانی و سیلاب کے باعث لاکھوں لوگوں کا متاثر ہونا، فصلوں کو نقصان اور آئندہ آنے والے زرعی موسم کے لئے بیجوں کا ٹھیک وقت پہ نہ لگنا اور فصلوں کا وقت پہ تیار نہ ہوکر زمینداروں اور کسانوں کا نقصان شامل ہے۔ نیز کہ پورا نظام موسم کے تبدیل ہونے سے درھم برھم ہوا ہے اور ان تبدیلیوں کو بہتر طریقے سے ٹھیک نہ کرنے کا خمیازہ پورا خطہ بھگت رہا ہے۔ملک بھر میں کئی سال سے سورج اپنے پورے جوش کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کے باعث گرمی کی لہروں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، ہیٹ ویو ایک ایسی کیفیت ہے جس میں تیز جھلسا دینے والی دھوپ کے ساتھ حبس زدہ ماحول بن جائے اور ہوا کی جگہ لُو چلنے لگے۔ گرمی کی اس شدید لہر کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض اضلاع میں درجۂ حرارت اب 52 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر چکا جبکہ لاہور میں درجۂ حرارت 46 ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔ یہ کیفیت صحت کے لیے اتنی خطرناک اور ناقابلِ برداشت ہے کہ اس سے انسانی صحت پر جان لیوا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سے ہی شہریوں کو خبردار کیا تھا اور اس کے پیش نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی نے ہیٹ ویوو گائڈ لائنز 2024 کے عنوان سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا جس میں شدید گرمی کے نقصانات سے بچنے کے لیے سرکاری اور انفرادی سطح پر تدابیر بتائی گئی ہیں۔امریکہ کے محکمہ موسمیات ’ایکیو ویدر‘ کے سربراہ ڈاکٹر جوئل مائر کہتے ہیں کہ ’ برصغیر میں عالمی اوسط کے مقابلے میں درجہ حرارت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے، شدید گرمی کی صورتحال یہاں کے بعض صحرائی خطوں کا درجہ حرارت باعث تشویش ہے جہاں موسم گرما کا درجہ حرارت پہلے ہی انسانی برداشت کی حد کو چھو رہا ہے۔ ان علاقوں کی ریکارڈ گرمی کم عمر افراد، چھوٹے بچوں اور ان لوگوں کے لئے زیادہ خطرناک ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے۔‘گزشتہ پانچ سال میں ملک کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا اربنائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان سے گہرا تعلق ہے۔ چونکہ شہر بڑھتی ہوئی آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے پھیل رہے ہیں، سبز جگہیں (درخت، پارک اور سبز میدان)، جو گرمی کے خلاف قدرتی بفر کے طور پر کام کرتی ہیں، کنکریٹ کی اونچی عمارتوں کی تعمیر کے لئے قربان کی جارہی ہیں۔ کلفٹن اربن فاریسٹ کے بانی شہزاد قریشی نے ایک حالیہ ویبینار میں گرین بیلٹس کے اس خطرناک سکڑاؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے حالیہ برسوں میں متعدد اموات کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے شہری آبادیوں پر ہیٹ ویو کے اثرات کو کم کرنے میں سبز جگہوں کے اہم کردار پر زور دیا۔شدید موسمی حالات کے چلتے جہاں لوگ کسی مسیحا کے منتظر ہیں کہ کوئی آئے اور معجزاتی طور پہ موسمی حالات درست ہو جائیں وہیں اس سوچ کہ برعکس غلام رسول پاکستانی اپنی مدد آپ کی تحت پچاس کروڑ پودے لگانے کا عزم لئے اب تک سترہ لاکھ دیسی پودے لگا چکے ہیں۔ پاک پتن کے یہ شہری موسمی حالات سے لڑنے اور ملک کو ہرا بھرا کرنے کی غرض سے 2017 سے ملک میں شجرکاری کے رجحان کو بڑھانے کے لئے خنجراب سے گوادر تک آبشاروں اور جھیلوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ ان قدرتی آبی وسائل کے پاس شجرکاری بھی کر چکے ہیں۔ اب تک چولستان میں ایک لاکھ سے زائد درخت اور پودے لگانے کی مہم مکمل کر کے، اب یہ جون 2024 سے پاکستان کے 600 سے زائد مقامات پر شجرکاری کی غرض سے اپنی ایک چھوٹی وین میں سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت کم ازکم 25 فیصد حصے پر جنگلات کی ضرورت ہے ایسے میں غلام رسول ماحولیات کو بہتر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے نکل پڑے ہیں۔ شجرکاری نا صرف کرہ ارض کیلئے بلکہ حالیہ چل رہی موسمیاتی تبدیلیوں ، شدید موسمی حالات کے اثرات کو کم کرنے اور دنیا کے ایکو سسٹم کے توازن کو قائم کرنے میں میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجز کو کم کرنے اور ان سے ہم آہنگ ہونے کے لیے پاکستان کو ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا ہوگا جو فوری اور طویل مدتی خطرات کے اثر کو زائل کرے۔ قلیل مدت میں، شجر کاری کے علاوہ صاف اور پائیدار توانائی کے ذرائع کو اپنانے سے ہی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کیا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے صحافتی حلقہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور میڈیا کے زریعے ماحولیاتی مسائل پر عوامی شعور بیدار کرنے کے لئے پاکستان میں کچھ ادارے کام بھی کر رہے ہیں جن میں سے ایک نمایاں نام گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشن (جی این ایم آئی) کا ہے، جس نے حال ہی میں سبز جرنلزم فیلوشپ پروگرام کے تحت صحافیوں اور ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والوں کیلئے موسمیاتی تبدیلیوں کی مؤثر رپورٹنگ کی تربیت کا اہتمام کیا۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر ان کا سامنا کرنے کے لیے فوری طور پر اقدامات نہیں کیے گئے تو کل قدرتی آفات کا سامنا کرنا ہو گا۔