کئی بار سوچا کہ ملک کے شہری اور ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے پانچ جولائی 1977پر اپنی رائے دوں، مگر خیال آیا کہ اسے تعصب کی نگاہ نہ سے دیکھا جائے، تاہم جہاں ملکی دفاع اور قومی سلامتی ہی متاع عزیز ہو تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کو ترجیح دینا ہی ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کا تقاضہ کرتا ہے اور پھرجب آئین ہی اس عمل کو جائز قرار دے دے تو پھر بحث کیسی؟۔ 1985کی منتخب قومی اسمبلی نے آئین کی آٹھویں ترمیم میں ان تمام اقدامات کو آئینی تحفظ دیا ہوا ہے۔ پانچ جولائی 1977کا قدم کیوں اٹھایا گیا؟ جواب تلاش کرنے کیلئے سیاست کے طالب علموں کو آئین کے مطابق حکومت اور اس کے آئینی فرائض کا جائزہ لینا چاہئے جس سے ان تمام سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔آئین کہتا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو بلا امتیاز روزگا دینا ریاستی فریضہ ہے لیکن بھٹو صاحب کے پورے دور میں زندہ رہنے، روزگار کے حصول اور مخالفین سے زندہ رہنے کا حق چھین لینے کا اختیار،حکومتی سرپرستی میں صرف پیپلزپارٹی کے کارکن کے پاس ہی تھا، روزگار کے سارے در صرف انہی پر کھلے تھے، راشن ڈپو ان کے نام الاٹ تھے، ملکی سیاست کاعالم یہ تھا کہ اس وقت بھٹو صاحب کی حکومت اور اپوزیشن اتحاد ایک دوسرے کو دیکھنے کے روادار نہ تھے، انتظامی مشینری مارچ1977 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بعد عوامی احتجاج کی صورت میںمفلوج ہوچکی تھی، امن و امان کا شدید مسئلہ پیدا ہوچکا تھا۔ عام انتخابات سے پہلے ملک میں بھٹو صاحب کی حکومت تھی جسےکوئی چیلنج درپیش نہ تھا، قومی اسمبلی کی مدت14 اگست1977 کو ختم ہونا تھی، بھٹو صاحب نے 1975 میں ہی، ایک سال قبل ملک میں عام انتخابات کرانے عندیہ دے دیا، تاریخ شاہد ہے کہ وہ اس وقت بائیں بازو کے اپنے انقلابی حامیوں کے ہاتھوں ہی پریشان تھے، کسنجر کہانی بھی اسی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا اعلان کرکے بھٹو صاحب نے انتخابی مہم بھی شروع کردی اور انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ’’سیاست دان بھی انتخابات سے اتنا ہی گریزاں ہوتے ہیں جتنا فوجی جرنیل جنگ سے، سیاسی لڑائی خواہی نخواہی لڑنا پڑتی ہے اورمجھے یقین ہے کہ انتخابات شفاف ہوں گے‘‘۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی11جنوری کو اپوزیشن کی نو جماعتوں پر مشتمل ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تشکیل کا اعلان کر دیا گیا، بھٹو صاحب کے انتہائی قریبی افراد نےبھی انہیں اپوزیشن کی اس خاموش انتخابی تیاری سے بے خبر رکھا۔ پیپلز پارٹی یہ سمجھ رہی تھی کہ کوئی سیاسی حریف اس کی دھول تک بھی نہیں پہنچ سکتا اسکے باوجود اس نے اپنی کامیابی کیلئے’’فول پروف اقدامات‘‘ کیے۔ انتخابات کے اعلان سے قبل پیپلز پارٹی کےدور حکومت میں11 اپریل1976 کو ایک ماڈل الیکشن پلان بنایا اس دستاویز پر بھٹو صاحب کے دستخط ہیں، اسی پلان کے تحت انتخابات سے پہلے وزراء کی نگرانی میں انتخابی حلقوں کی حلقہ بندیاں کی گئیں، بھٹو کابینہ کے رکن کی گواہی بھی ریکارڈ پر ہے کہ ’’امیدواروں نے اپنے اپنے قیاس کے مطابق اپنے حلقوں، ضلعوں اور ڈویژنز کی از سر نو حد بندی کر لی، انتخابات میں سرکاری گاڑیوں اور کارکنوں میں آتشیں اسلحہ کی تقسیم ہوئی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے سرکاری اہل کاروں پر دبائو ڈالا گیا۔‘‘ بھٹو صاحب کی بلا مقابلہ کامیابی کے اعلان کےبعد ان کی کابینہ کے بیشتر وزراء بھی بلامقابلہ کامیاب قرار پائے، 155نشستوں پر پیپلز پارٹی کی کامیابی ہی اصل میں خطرے کی گھنٹی تھی، ملک میں رد عمل بہت شدید تھا اور پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا، پاکستان قومی اتحاد نے الیکشن کمیشن توڑنے، فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں از سر نو انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا اور دھمکی دی کہ اگر14مارچ تک مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو ملک گیر تحریک چلائی جائیگی،12 مارچ کو بھٹو صاحب نے مذاکرات کی پیشکش کی مگر قومی اتحاد کے سربراہ مفتی محمود نے اسے مسترد کر دیا اور بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ نئے انتخابات کرائے جائیں، بھٹو صاحب نے19 مارچ کو خط کا جواب دیا کہ از خود انہوں نے شکایات کا جائزہ لینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس وقت قومی اتحاد میں شامل جماعتیں کوئی زیادہ منظم نہ تھیں، لیکن عوام کی بہت بڑی تعداد بھٹو صاحب کی حکومت سے تنگ تھی لہٰذا اس نے غصے اور نفرت میں قومی اتحاد کی تحریک کا ساتھ دیا، قومی اتحاد کی عوامی تحریک آگے بڑھی تو بھٹو حکومت بھی چاروں صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کیلئے تیار ہوگئی اور اعلان کیا کہ اگر قومی اتحاد صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرلے تو وہ قومی اسمبلی توڑدیں گے تاکہ قومی اسمبلی کے بھی ازسر نو انتخابات ہو سکیں، لیکن قومی اتحاد کی تحریک عوام کی شرکت کے باعث زور پکڑ چکی تھی لہٰذا وہ نئے انتخابات کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہوئے، یہی وہ موڑ ہے جہاں کہانی نے ایک نیا موڑ لیا کہ10 اپریل کو بھٹو صاحب نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق سے ملاقات کی، اور کہا کہ ’’ان کی حکومت انصاف کے تقاضے پورے کرئیگی اور انتخابی مسائل کے حل کیلئےمذاکرات کے دروازے بند نہیں کریگی، تاہم فوج کسی بھی ناگہانی صورت حال کے مقابلے کیلئے خود کو تیار رکھے‘‘ یہ پہلی دعوت تھی جو بھٹو صاحب نے مداخلت کیلئے فوج کو دی تھی، اس ملاقات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنے رفقا کو اعتماد میں لیا تاہم وہ اس نکتہ پر اتفاق کرچکے تھے کہ حکومت کو عوامی حمایت حاصل نہیں رہی ،فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم کو بتادیا جائے کہ عوام میں ان کی حکومت کے بارے میں بہت غصہ اور ردعمل ہے، یہ بھی فیصلہ ہوا کہ فوج سیاست سے دور رہے گی۔جنرل ضیاء الحق کا حکومت کیلئے یہ مشورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تھے اور حالات کی درستی چاہتے تھے اور اس کیلئےحکومت کو موقع بھی دے رہے تھے، مگر عوام میں غصہ بھی شدید تھا، انتخابی دھاندلی کیخلاف تحریک در اصل بھٹو مخالف تحریک بن چکی تھی،20 اپریل کو حکومت نے کراچی اور لاہور میں مارشل لا نافذ کرنے کا عندیہ دیا، فوجی قیادت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ یہ سلسلہ پھر رکے گا نہیں، بہر حال حکومت نے لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لا نافذ کرنے کیلئےجنرل محمد شریف کو ہدایت کردی ۔ وزیر اعظم نے اٹارنی جنرل کو فرمان جاری کرنے کیلئےڈرافٹ تیارکرنے کی ہدایت کی کہ صدر فضل الہٰی چوہدری سے اس پر دستخط کرالئے جائیں، اسکے باوجود وزیر اعظم سے کہا گیا کہ اس سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے، تو وزیر اعظم نے جواب دیا تو کیا پھر پورے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے؟ یہاں1977 کے مارشل لاکے کچھ حقائق بیان کرنا ضروری ہیں تاکہ سیاست کے طالب علم اس وقت کے واقعات کو پرکھ اور سمجھ سکیں، جب ملک میں فوج نے نظم و نسق سنبھالا تو اس وقت کے صدر فضل الٰہی چوہدری نے بھی سُکھ کا سانس لیا اور مارشل لا حکومت کے ساتھ کام جاری رکھنے کی درخواست بھی قبول کرلی ،اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم آج اپنے سیاسی حالات کا بھی جائزہ لیں، سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم ملکی ترقی، سلامتی،مضبوط دفاع اور عوام کی خوشحالی کیلئے کام کریں اگر ہلہ گلہ یونہی جاری رہا، تو حالات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔