• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدین کی کون سی کوتاہیاں بچوں کو خود غرض بناتی ہیں؟

---فائل فوٹو
---فائل فوٹو 

بچوں کی تربیت آسان کام نہیں، اس میں جسمانی سمیت ذہنی مشقت بھی درکار ہوتی ہے، ایک سلجھا ہوا بااعتماد بچہ ہی آگے چل کر معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔

ماہرین کی جانب سے والدین کو بچوں کی تربیت کے لیے متعدد رہنما اصول تجویز کیے جاتے ہیں جن کی مدد سے مثبت ذہنیت، بے مثال شخصیت اور ایک باکردار فرد کو بہتر معاشرے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔

 بچوں کی ہر خواہش اور ضد پوری کرنا ضروری نہیں:

گھروں اور اسکولوں میں بچوں کو ’چلڈرین رائٹس‘ کے نام پر بے تحاشا آزادی اور سہولتیں دستیاب کی جا رہی ہیں۔

والدین کی جانب سے بھی اپنے بچے کو محبت کے بجائے عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو کہ بچے کی شخصیت میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔

بچے کی ہر ضد اور خواہش کو پورا کرنا ہر والدین کا خواب ہوتا ہے مگر یہ عمل بچے کی آنے والی زندگی کو مشکل بنا سکتا ہے لہٰذا بچوں کو خواہشات محدود رکھنا سکھانا تربیت کا ایک اہم ترین نکتہ ہے۔ 

متوازن انداز میں بچوں کی فرمائشیں مانیں، آزادی دیں، محبت اور نرمی دیں لیکن اس اپنی محبت کو عقیدت میں تبدیل نہ ہونے دیں۔

بچوں میں نظم و ضبط کا فقدان:

بچوں اور والدین کے درمیان مثبت رشتہ قائم کرنے والے کونسلنگ ماہرین کے مطابق آج کل والدین اپنے بچوں کے بارے میں کوئی تنقیدی بات سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ ایک شرارتی اور بگڑے ہوئے بچے کی کونسلنگ کافی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے بجائے اس کے کہ ایک بگڑے ہوئے بالغ فرد کی کونسلنگ کی جائے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں تبدیل ہونے، پہلے بہتر اور مثبت ہونے اور اچھی چیزیں جذب کرنے کی فطری استعداد ہوتی ہے۔

اس لیے بچوں میں کسی بھی بری عادت اور غلط رویے کے رونما ہونے پر اس کی اصلاح کے لیے فوری کوشش کرنی چاہیانے قبل اس کے کہ بات آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے۔

بچے کی تربیت میں یکسوئی سے کام نہ لینا:

جب والدین ہی بچوں کے سامنے اپنے قواعد و ضوابط پر قائم نہیں رہیں گے تو بچے بھی مستقل مزاج نہیں ہوں گے۔

بچوں کی تربیت کے دوران والدین کا مستقل مزاج ہونا بے حد ضروری ہے، بچوں کو کوئی بھی عمل سکھاتے اور بتاتے ہوئے اس عمل کو روزانہ کی بنیاد پر دہرائیں اور بچوں کو وقت کی پابندی پر روزانہ کم از کم  منٹ تک دوستانہ ماحول میں لیکچر دیں۔

بچوں کو غلطیاں دہرانے سے منع کریں:

بچے ہوں گے تو غلطیاں بھی کریں گے لیکن آپ مناسب طریقے سے ایسی غلطیوں کی راہ روک سکتے ہیں، مثال کے طور پر آپ اپنے گھر کی چیزوں کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ 

قیمتی اشیاء کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھ سکتے ہیں اور اگر کھیل میں ان کی لڑائی کا خطرہ ہو تو بچوں کو ایک دوسرے سے دور کر سکتے ہیں۔

اِنہیں گھر کی اشیاء اور دوستوں کی قدرو قمیت کا بتائیں، ایسی صورتِ حال میں آپ بچوں کو مثبت لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے دیگر سرگرمیوں کی جانب متوجہ کرکے پہلی غلطی کا احساس دلا سکتے ہیں۔

بچوں کو غلطی پر معذرت کرنا سکھائیں:

اگر آپ کا بچہ غلطی کے بعد اس پر معذرت کرے تو آپ اس کی تعریف کریں، اگر بچہ معذرت نہیں کرتا تو اسے یہ تربیت دیں۔

 اپنے اور بچے کے درمیان اعتماد، غیر مشروط محبت اور سچائی کا رشتہ قائم کریں، بچے کو ایسا بنائیں کہ اگر وہ دسترخوان پر پانی کا گلاس الٹ دے تو وہ بلا جھجک اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اس پر معذرت کرے۔

بچوں پر ذمہ داریاں ڈالیں:

بچوں کو گھر کے کام کاج کرنے کے لیے دیں، چھوٹے بچوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ کام کرنا اچھا لگتا ہے، لہٰذا اس بات کا فائدہ اٹھائیں اور انہیں گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے کو کہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ جو بچے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں وہ پڑھائی بھی اچھی طرح سے کر پاتے ہیں، گھر کے کام کرنے سے وہ یہ سیکھتے ہیں کہ انہیں جو کام دیا گیا ہے انہیں وہ پورا کرنا چاہیے۔ 

جو بچے گھر کے کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹاتے ہیں وہ لوگوں کی مدد کرنا بھی سیکھتے ہیں اور خودغرض نہیں بنتے۔

خاص رپورٹ سے مزید