مولانا محمد امجد خان
دعائے رسولؐ، خلیفۂ دوم سیّدنا حضرت عمر فاروقؓ کو اسلامی تاریخ میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کو آنحضرت ﷺ نے اپنے رب سے مانگا۔ حضور اکرم ﷺ مرادِ ابراہیم خلیل اللہؑ ہیں اور حضرت عمر فاروقؓ مراد ِامام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے خاتم الانبیا ء ﷺ مبعوث ہوئے اور حرم آبا د ہوا اور حضوراکرم ﷺ کی دعاسے حضرت عمر فاروق ؓ نے اسلام قبول کیا اور صحن حرم میں با جماعت نماز ادا کر نے کی باقاعدہ ابتدا ء ہوئی۔
حضرت عمر ؓ کے مقام ومرتبہ کا انداز ہ مندرجہ ذیل سے لگا یا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے عظیم الشان درجہ نبوت کا ہے، بندہ محنت وریاضت کے ذریعے ولی تو بن سکتا ہے ،لیکن نبی نہیں بن سکتا۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں فر ما یا: اگر میرے بعد نبوت ہوتی تو عمر فاروق ؓ کو یہ درجہ عطا کیا جاتا، مگر میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔
مفتی اعظم ہند، مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒفر ماتے ہیں جو باتیں خلاف عادت انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوں، انہیں معجزہ جو اللہ کے نیک بندو ں کے ذریعے ظاہر ہوں، انہیں کرامات کہتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ ایک بار مدینۂ منورہ میں تشریف فرما تھے کہ زلزلے کی کیفیت زمین پر طاری ہوئی اور زمین کانپنے لگی۔
حضرت عمر ؓ کا درہ تو مشہور تھا جس نے عدل وانصاف میں اپنے اور بیگانے کا فرق مٹا دیا ،درہ زمین پر مارا اور فرمایا کیوں کانپتی ہے ؟کیا تجھ پر عمر ؓ نے انصاف نہیں کیا؟ زلزلہ اسی وقت تھم گیا، زمین کا تھم جانا اس بات کی گواہی تھا کہ آپؓ نے انصاف کا حق ادا فر ما یا ہے اور علمائے سلف میں یہ بات مشہور ہی ہے کہ حضرت عمر ؓ کے عدل اور محدثین کے اسفار کے وسیلے سے جو دعا مانگی جائے، اللہ تعالیٰ اسے شرفِ قبولیت سے نوا ز تے ہیں۔
دریائے نیل، مصر کا مشہور دریا ہے، سال میں ایک بارخشک ہو جا تا تھا، چنانچہ مصر کے لوگ ایک خوب صورت لڑکی کا بناؤ سنگھار کر کے اسے دریا میں ڈالتے تو پانی حسب معمول جاری ہو جاتا۔ مصر جب فتح ہوا ،اسلام کی روشنی جب وہاں پہنچی تو حسب روایت دریا خشک ہو نے کے وقت لڑکی کو تیار کر کے اہل مصر پھینکنے لگے مصر کے حاکم نے حضرت عمر ؓ کو اس رسم بد سے بذریعہ خط آگاہ فرمایا۔
حضر ت عمر ؓ نے فرمایا: انسانی جان دریا سے قیمتی ہے، میرا یہ خط دریا میں ڈال دو ،لوگ حیران تھے نیل ایک دریا ہے، انسان نہیں کہ وہ خط کا مطلب جان سکے، مگر انہیں یہ پتا نہ تھا جو رب العا لمین کا حکم ما نتا ہے، پھر ساری کا ئنات اس کاحکم ما نتی ہے ۔خط کامضمون پڑھ کر حضرت عمر ؓ کے ایمان ویقین کاا ندازہ لگا یا جا سکتا ہے ،ایک ایک حرف سے توحید ٹپکتی نظر آتی ہے۔
حضرت عمر ؓ نے لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم (اللہ تعالیٰ کے بندے عمر بن خطاب ؓ کی طرف سے دریائےنیل کے نام ،اگر تو اپنے اختیار سے جاری رہتا ہے تو ہمیں کوئی ضرورت نہیں اور اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہے تو پھر تجھے جا ری رہنا چاہیے، یہ خط جب دریا میں ڈالا گیا تو نیل میں پانی ایسے چڑھنا شروع ہوا، جیسے سیلاب کے دنوں میں تیزی سے چڑھتا ہے اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک جاری ہے۔ اس کی روانی وفیض رسانی میں کو ئی فر ق نہیں آیا، تاریخ نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اس واقعے کو دیکھ کر غیر مسلموں نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کہ جس مذہب حق کے ماننے والے کی تحریر کاحکم دریا بھی مانے، اس مذہب حق کی بر کا ت کا عالم کیا ہوگا۔
حضرت عمر فاروق ؓ ایک روز جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ اچانک خلافِ معمول دوتین بار فر ما یا’’یا سار یۃ الجبل‘‘ اے ساریہ ؓ پہاڑ کی طرف دیکھ۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بعد میں دوران خطبہ اس جملے کے کہنے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمر ؓ نے فر ما یا : عراق میں نہا وند کے مقام پر حضرت ساریہ ؓ کی قیا دت میں جو لشکر مصروفِ جہاد ہے ،میں نے دیکھا کہ اس کے سامنے سے کفار کا لشکر آرہا ہے، جس کی حضرت ساریہ ؓ کو خبر ہے اور پیچھے سے جو لشکر پہاڑ سے آرہا ہے، اس کی خبر نہیں، چناںچہ میں نے یہ الفاظ بے اختیار کہے (اور اس یقین کے ساتھ کہے کہ اللہ تعالیٰ ان تک پہنچا دے گا) کچھ دنوں بعد عراق سے جب حضرت ساریہ ؓ کا قاصد آیا تو اس نے اس کی تصدیق کی کہ ہم لوگوں نے جمعہ کے دن فلاں وقت حضرت عمر ؓ کی آواز سنی اور سنبھل گئے اور پہاڑ پر چڑھ کر دشمن سے مدافعت کی، اللہ تعا لیٰ نے کا میا بی عطا فر ما ئی، اس واقعےپر تعجب نہیں کر نا چاہیے۔
آج کے دور میں مو با ئل فون نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے، اگر آج دنیا کے ایک کو نے سے دوسرے کو نے تک آواز پہنچ سکتی ہے، حتیٰ کہ اب تو با قاعدہ تصویر اور بات کر نے والے کی مکمل حر کات وسکنات دکھائی جاسکتی ہیں تو پر وردگار عز وجل لشکر اسلام کے جاں باز سپاہیوں کی حفاظت کی خاطر حضرت عمر فاروق ؓ کو دشمن کے لشکر کا نقشہ دکھا بھی سکتے ہیں اور حضرت عمر ؓ کی آواز وہاں پہنچا بھی سکتے ہیں، بس بات ایمان ویقین کی ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ خطبہ ارشاد فر ما رہے تھے، دوران خطبہ آپ ؓ نے اچانک فر مایا( میں حاضر ہوں )تمام صحابہ ؓ کچھ سمجھ نہ سکے، ایک لشکر تو جہاد سے فتح یاب ہو کر واپس آیا اور سردار لشکر نے فتوحات کے سلسلے میں بات چیت شروع کی، حضرت عمر ؓ نے فرمایا: باقی باتیں بعد میں ہوں گی، پہلے یہ بتائو تم نے سر دی کے موسم کا لحاظ بھی نہیں کیا اور ایک شخص کو راستے میں حائل پانی کی گہرائی معلوم کر نے کے لیے اس میں اتا ر دیا، اس شخص نے مجھے پکارا کہ میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، میں نے اسے جواب دیا، مگر وہ پانی اور شدت سر دی کی وجہ سے جانبر نہ ہو سکا اور اپنے رب کے حضور پہنچ گیا، اگر قصاص میں تمہاری جان لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، مگر پھر بعد میں آنے والے عام سی بات پر بھی سزا تجویز کر نا شروع کردیں گے ،جائو، اب اس کا فدیہ دو ۔حجاز کی گھاٹیوں سے آگ نکلی جس نے سب کچھ خاکستر کر دیا۔
حضرت عمر ؓ نے حضرت تمیم داری ؓ کو ساتھ لیا اور آگ بجھانے نکلے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت تمیم داری ؓ سے فر مایا کہ آگ کو ہنکانا شروع کرو، انہوں نے آگ کو اپنی چادر سے ہنکانا شروع کیا اور اسے دھکیلتے دھکیلتے اس گھاٹی سے جہاں سے نکلی تھی، پہنچا دیا اور آج تک دوبارہ وہ آگ نہیں نکلی۔
حضرت عمر ؓ کی کرامت میں سے آپ ؓ کی وہ دعا بھی ہے جو پروردگار کے حضور مانگا کرتے تھے، اے اللہ، مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت نصیب فر ما اور دے بھی شہر مدینہ میں۔ صحابہ کرام ؓ اس پر تعجب کا اظہار کرتے ،کیونکہ شہادت تو میدان جنگ میں آتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی۔
شہادت بھی مدینہ شہر میں آئی، مسجد نبوی میں نصیب ہوئی اور نماز پڑھتے ہوئے نصیب ہوئی اور مزید یہ کہ تد فین بھی نبی اکرمﷺ اور سید نا صدیق اکبر ؓ کے پہلو میں نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حضرات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔(آمین )