• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کیلئے سوشلسٹ رہنماؤں کی جدوجہد تاریخ کا اہم حصہ ہے، مقررین

لیڈز( پ ر) سوشلسٹ رہنماؤں کی جدوجہد ملکی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ انقلابی رہنماؤں نے اپنا تن، من اور زندگی اپنے ملک اور عوام کے بہتر مستقبل پر قربان کر دی۔ ترقی پسند متبادل نظام کے بغیر ملک کا وجود خطرے میں رہے گا۔ سوشلسٹ اپنے وطن اس کی مٹی اور عوام سے بہت محبت کرتے ہیں۔ بچھڑنے والے انقلابی ساتھی ہمارا ورثہ ہیں اور انقلابی تحریکوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ سوشلسٹ رہنماؤں کے ورچوئل ریفرنس سے مقررین کا خطاب۔ تقریب کا اہتمام عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ نے کیا تھا، جِس کے ماڈریٹرز آکسفورڈ سے عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی رکن نذہت عباس اور لیڈز سے پارٹی رہنما پرویز فتح تھے۔ تقریب کی صدارت برطانیہ کے دورے پر آئی ہوئی عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری ویمنز اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی استاد ڈاکٹر فرزانہ باری نے کی۔ مقررین میں مانچسٹر سے ذاکر حسین ایڈووکیٹ نے مختار باچا، لمس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر یونس صمد اور کنگز کالج لندن کی سکالر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے مزدور راہنما کرامت علی، کینیڈا سے نامور ترقی پسند ادیب و دانشور فیاض باقر نے سوشلسٹ رہنما شمعون سلیم، لندن سے ترقی پسند ادیب تنویر زمان خان ،انسانی حقوق کے علم بردار محبوب خان، کالم نویس صنوبر ناظر نے کمیونسٹ رہنما رشاد محمود اور پرویز فتح نے ہاری و کسان رہنما اسحاق مانگریو کی جدوجہد پر روشنی ڈالی۔ تقریب کا آغاز بچھڑ جانے والے رہنماؤں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔ مانچسٹر سے عوامی ورکرز پارٹی کے سینئر رہنما ذاکر حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ جتنے دوست ہیں جن کا ہم ریفرنس کر رہے ہیں یہ وہ حوصلے ہیں جن کی وجہ سے ہم عقل کی کچھ سوچ بھی رکھ سکے ہیں اور کچھ بے معنی وقتوں میں معنی بھی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ مختار باچا میرے سمیت بہت سارے لوگوں کے نظریاتی اور سیاسی استاد رہے۔ مختار باچا ہمارے ان رہنماؤں میں سے ہیں، جنہوں نے اپنی جوانی اور پوری زندگی اسی جدوجہد میں، اسی جنگ میں گزاری۔ اُن کی آخری سانس تک کوئی ایسا لمحہ نہیں آیا جب وہ اپنے نظریے سے پیچھے ہٹے ہوں۔کینیڈا سے نامور ترقی پسند ادیب و دانشور فیاض باقر نے اظہار کرتے ہوئے شمعون سلیم اور اپنے تعلقات اور ملتان میں شمعون کے دھکتے ہوئے سیاسی دور، ان کے دوستوں کے حلقے کے بارے میں اور لاہور مین ضیاء الحق دور میں شاہی قلعہ لاہور میں ایک پیشی کے بارے میں اور شمعون کے اپنے آپ سے تعلقات کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ شمعون اور میرا ایک خاص قسم کا تعلق تھااور ہم دونوں کے والد جماعت اسلامی کے اہنما تھے، اور دونوں ہی کٹر سوشلسٹ بن گئے۔ لمس یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر یونس صمد نے کہا کہ مزدور رہنما کرامت علی سے میری پہلی ملاقات 50برس قبل لندن میں ہوئی۔ اس نےپہلی ملاقات میں ہی مجھے ہمنوا بنا لیا۔ میری ان سے آخری ملاقات لاہور میں ہوئی، جب وہ نوجوانوں میں امید جگا رہے تھے اور انہیں بھی انسپائی کر رہے تھے۔ وہ ایک بہت ہی سادہ طبعیت رکھنے والی شخصیت تھے اور لوگ اُنہیں بہت آسانی سے تلاش کر سکتے اور مل سکتے تھے۔ صنوبر ناظر نے ارشاد محمود کے بارےمیں بات کرتے ہوئے کہا وہ اپنے نظریات سے اختلاف بھی بڑے فراخدلانہ انداز میں قبول کرتے تھے۔ انہوں نے کم عمری میں ہی شیشے کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔ وہیں ان کی ملاقات ترقی پسند مصنفین اور کیمونسٹ پارٹی کے کارکنوں سے ہو گئی، اور وہ انہیں کیموسٹ پارٹی بمبئی کے دفتر لے گئے اور وہاں انہیں کیفی اعظمی، شوکت اعظمی، علی سردار جعفری، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور سجاد ظہیر جیسے بڑے ادیبوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ہو گیا۔ اتنی کم عمری میں ایسے بڑی ادیبوں کی صحبت سے مارکسی نظریات ان کے اندر سرایت کر گئے تھے۔ وہ پڑھنے کے بہت شوقین تھے اور وہ پری کتاب ایک نشسست میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ پاکستان آ کر انہوں نے کمیونسٹ پارٹی اور پھر عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ ایک با عمل انقلابی تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر روزگار نہیں ہو گا تو نظریات کی کوئی خدمت نہیں کر پائیں گے۔ نامور ترقی پسند دانشور اور حقوقِ انسانی کے علم بردار محبوب خان بارے بات کرتے ہوئی ترقی پسند ادیب، کالم نویس و دانشور تنویر زمان خان نے کہا کہ جدوجہد میں یکجہتی، سوج کا یکجا ہونا اور نظریات سے وابستگی ہی ہماری دوستی کی بنیاد رھا۔ محبوب خان جب فیصل آباد سے پنجاب یونیورسٹی میں آئے، اس وقت وہ فیصل آباد میں ٹریڈ یونین کی سیاست کے ساتھ وابستہ تھے اور طلباء سیاست بھی کر رہے تھے۔ میں بھی اسی سیاست کا حصہ تھا۔اسحاق مانگریو کےبارے میں بات کرتے ہوئے پرویز فتح نے کہا کہ 1955ء میں سانگھڑ کے ایک محنت کش کھرانے میں پیدا ہونے والے اسحاق مانگریو 1980ء تک سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک پُرجوش انقلابی اور ادبی کارکن بن کر ابھرے۔ انہوں نے 80 کی دہائی کے آغاز میں سانگھڑ سے ہی تعلق رکھنے والے نامور ہاری رہنما حسن عسکری کے ساتھ مل کر سندھ ہاری تنظیم کی تشکیل نو کی، اور ہاریوں کو منظم کرنے نکل پڑے وہ چند برسوں میں ہی ہاری تنظیم کے جنرل سیکرٹری منتخب ہو گئے۔بعد ازاں وہ پاکستان بھر میں کسانوں اور ہاریوں کو منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے لگے۔ صدر تقریب ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا کہ آج ہم اپنے بچھڑے ساتھیوں کو یاد کر رہے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں بھرپُور جدوجہد کی، اور اس دُنیا کو بہتر بنانے اور سماجی تبدیلی لانے میں اپنا بہترین کردار ادا کیا۔ میں ان تمام ساتھیوں کی زندگی بھر کی انتھک جدوجہد کو سلام پیش کرتی ہوں۔ وہ انقلابی جدوجہد میں ہمیشہ ہمارے درمیان، اور ساتھیوں کی راہنمائی کرتے رہیں گے۔

یورپ سے سے مزید