کربلا کا واقعہ کوئی چاہے بھی تو تاریخ کے اوراق سے نہیں مٹا سکتا، اس واقعہ کے بعد کئی متکبر بادشاہوں نے تاریخ کے اوراق سے اس واقعہ کو مٹانے کی کوشش کی، کئی نام نہاد ظالم مسلمان حکمرانوں نے طاقت کے بل بوتے پرحضرت امام حسینؓ کی یادوں کو دلوں سے نکالنے کی کوشش کی مگر وہ بھول گئے کہ دلوں پر خدائے لم یزل کا قبضہ ہے اور خدا، حسین ؓکی یادوں کے چراغ کیسے بجھنے دے کہ حسینؓ نے خالصتاً اللّٰہ کے لئے قربانی دی، حق و باطل کے معرکے میں حسینؓ حق کا رہنما ٹھہرا، تمام تر جبر کے سامنے پہاڑ جیسا حوصلہ لئےصبر و استقامت کی لاثانی مثال بنا رہا۔ حسین ؓنے گلشن محمد صلی اللہ علیہ السلام کے سارے پھول خدا کے نام پر وار دیئے۔ حسینؓ دین فطرت کے دشمنوں سے لڑا، حسینؓ کی یادوں کو مٹانے والے مٹ گئے۔ بقول محسن نقوی
وہ جو مٹ گیا، وہ یزید تھا
جو نہ مٹ سکا، وہ حسین ہے
آج کی دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں حسینؓ کے نام پر چراغ نہ جلتا ہو۔ حسینؓ دنیا بھر کے آزادی پسندوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ حسین ؓحق پرستوں کا رہنما ہے۔ حسینؓ نے کربلا کی مقتل گاہ کو آنے والے زمانوں کے لئے درسگاہ بنا دیا۔ کربلا کی اس عظیم درسگاہ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے، کبھی ظالم کے آگے نہ جھکنا، ظالم طاقت کے نشے میں سب کچھ بھول جاتا ہے، اس کی اس بھول کو پاؤں تلے روند دینا، اس کے تکبر کو خاک میں ملا دینا، کربلا کا سبق یہ بھی ہے، کبھی ظالموں کا ساتھ نہ دینا اور ظلم پر خاموش بھی نہ رہنا کیونکہ ظلم پر خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں، سو کبھی کسی بھی حالت میں ظلم پر چپ نہ رہنا۔ کربلا کا سبق یہ بھی ہے کہ خدا کی دی گئی زندگی خدا پہ وار دو۔ کربلا کی درسگاہ سے اتنے اسباق ملتے ہیں کہ ہر سبق روشنی کا مینار نظر آتا ہے، کربلا میں سب کچھ عروج پر تھا، خدا کے راستے پہ ڈٹ جانا، ظلم کے مقابل کھڑے ہو جانا، کسی فاسق و فاجر حکمران کی اطاعت نہ کرنا، یہ سب کچھ کربلا میں عروج پر تھا۔ کربلا میں وفا اپنی انتہاؤں کو چھوتی ہوئی نظر آئی، تلواروں کے سائے میں عبادت بھی نظر آئی، چراغوں کو بجھا کر موقع دینے کی سخاوت بھی نظر آئی۔ کربلا میں بچپن، جوانی، بڑھاپا تینوں، خدا کے راستے میں لڑتے نظر آئے۔ ہزاروں کے لشکر کے سامنے چھ درجن ایسے بہادر نظر آئے جن کی بہادری پر دنیا اب بھی نازاں ہے ۔ فلک والے تو اسی روز نازاں تھے ، کربلا میں بھوک اور پیاس کی انتہا میں راہ حق پہ قائم رہنے کی ایسی مثال قائم کی جو نہ تھی نہ ہو گی۔ میدان کربلا سے ایک اور سبق ملتا ہے کبھی طاقت کے نشے میںمتکبر ہو کر انسانوں پر ظلم مت کرنا کیونکہ کربلا میں یوں ہوا کہ طاقت کے نشے میں لوگ بھول گئے کہ سامنے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ حکمرانی اور طاقت کا نشہ اتنا برا ہے کہ لوگوں کو نواسہ رسول بھی یاد نہیں رہتا، لوگ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کو بھول جاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں بھی کربلا کا سبق بہت اہم ہے، کربلا سے عام انسانوں کے لئے یہ پیغام ہے، ظلم برداشت نہ کرنا، ظلم کے خلاف ڈٹ جانا، ظلم پہ چپ مت رہنا اور ظالموں کا ساتھ نہ دینا۔ کربلا سے ایک پیغام حکمرانوں کے لئے بھی ہے، کبھی ظلم مت کرنا، طاقت کے نشے میں اندھے ہو کر انسانوں کو موت کے گھاٹ مت اتارنا، لوگوں پہ پانی اور خوراک بند نہ کرنا، اپنی ناجائز حکمرانی کی لوگوں سے اطاعت مت کروانا، طاقت کے نشے میں اتنے اندھے مت ہو جانا کہ یہ نشہ تمہاری عبادتوں کو غارت نہ کر دے، حج تو شمر نے بھی سولہ کر رکھے تھے، یزید بھی جمعے کے خطبات دیتا تھا، اٹھارہ ہزار عالم بھی تھے، جن کے کرداروں کو باہو جیسے سچے سلطانوں نے نشان عبرت بنا کر پیش کیا، لوگ رہتی دنیا تک ان کرداروں پر دو چار حرف بھیجتے رہیں گے ، سو ایک سبق یہ بھی ہے کہ آپ جتنے بھی عبادت گزار ہوں اگر آپ کے کردار میں ظلم شامل ہے تو آپ صاحب کردارنہیں۔ لوگو! تمہاری زندگیاں، تمہارے حالات، تمہارے چہرے، تمہارے سامنے ہیں، اپنی زندگیوں اور حالات میں تلاش کرو کہ کیا تمہارا کردار حسینی ہے یا یزیدی۔ ویسے عصر حاضر کا ایک شاعر کہتا ہے کہ
خون حسین کی قسم یہی ہے ارض کربلا
لاکھوں یزید ہیں یہاں کلمہ حق اٹھا کے دیکھ
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)