مولانا محمد قاسم رفیع
نواسۂ رسولؐ سیّدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاندانِ نبوت میں آنکھ کھولی، خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہرا ءرضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کوکھ سے جنم لیا، شیرِ خدا سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہٗ الکریم کا سایۂ عاطفت پایا، بڑے بھائی سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفاقت میں پلے بڑھے اور ان سب سے بڑھ کرتاج دارِ دوعالم حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود بحیثیت نانا جان آپ کو ملا۔
آپ کا گھر مسجد نبوی سے متصل تھا، جہاں ہر وقت اصحابِ رسول علیہم الرضوان کی آمد و رفت رہتی اور حضرت امام حسینؓ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی صحبتوں و شفقتوں کے اسیر ہوتے اور ازواجِ مطہراتؓ بحیثیت امہات المومنین آپؓ کے لاڈ اٹھاتیں۔
حضرت امام حسینؓ نےحضور اکرم ﷺکے وصال ربیع الاول ۱۱ ہجری تک ساڑھے چھ سال کا عرصہ اپنے نانا جان کی صحبت و رفاقت میں گزارا اور آپؓ شرفِ صحابیت سے مفتخر ہوئے۔ آپ ﷺ کا بچوں کو بیعت کرنے کا معمول نہیں تھا، لیکن یہ سعادت حضرت امام حسینؓ کو نصیب ہوئی کہ حضور اکرمﷺ نے انہیں بچپن میں بیعت فرمایا۔
چنانچہ حضرت جعفر بن محمدؒ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے حضرت امام حسن، حضرت امام حسین، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو اس وقت بیعت فرمالیا تھا، جب یہ بالغ بھی نہیں ہوئے تھے۔ ان حضرات کے سوا اور کسی کو عدم ِبلوغ میں بیعت نہیں فرمایا۔ ( البدایۃ والنہایۃ)
حضرت اسامہ بن زید ؓفرماتے ہیں کہ ایک بار میں اپنے کسی کام کے سلسلے میں رات کے وقت آں حضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺباہر اس حالت میں تشریف لائے کہ گود میں کچھ اٹھائے ہوئے تھے، میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! آپ ﷺکی گود میں کیا ہے؟ آپ ﷺنے چادر مبارک اٹھائی تو دیکھا کہ آپﷺ اپنے نواسوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے، پھر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے ہیں، اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، آپ بھی انہیں اپنا محبوب بنالیجیے ، اور جو ان سے محبت کرے اسے بھی اپنا محبوب بنالیجیے ۔ (باب مناقب الحسنؓ و الحسین ؓ، ترمذی)
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہﷺ! آپ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: حسنؓ اور حسینؓ! اور آپ حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کرتے تھے کہ میرے بیٹوں کو میرے پاس بھیج دو۔ جب حسنؓ و حسینؓ آجاتے تو آپ انہیں سونگھتے (جیسے چھوٹے بچوں کو پیار کرتے ہوئے ماں باپ سونگھا کرتے ہیں) اور خود سے چمٹا لیتے۔ (ایضاً)
ایک مرتبہ آپ ﷺ ام المومنین سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سے باہر تشریف لائے، جب آپ خاتونِ جنت سیّدہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر کے باہر سے گزرے تو آپﷺ کو حضرت امام حسینؓ کے رونے کی آواز سنائی دی۔ آپ ﷺنے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا: کیا تم نہیں جانتیں کہ حسینؓ کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد : 9؍201 )
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرمﷺ کے ساتھ عشا ءکی نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺ جب سجدہ کرتے تو حضرات حسنؓ و حسینؓ آپﷺ کی پیٹھ پر سوار ہو جاتے، پھر جب آپ ﷺسجدے سے اپنا سر مبارک اٹھانے لگتے تو آپ اپنا ہاتھ اپنے پیچھے لے جاکر ان دونوں کو اپنی کمر سے بہت آرام سے اٹھاتے اور زمین پر بٹھا دیتے۔ پھر جب آپ ﷺدوبارہ سجدہ کرتے تو وہ پھر کمرپر چڑھ جاتے، یہاں تک کہ آپﷺ نے نماز ختم فرمائی اور ان دونوں کو اپنی رانوں پر بٹھالیا۔ (مسند ِ احمد : 16 ؍ 386، ورواتہٗ ثقات)
بعض روایات میں ہے کہ جب وہ آپﷺ کی کمر مبارک پر سوار ہوتے تو بعض دفعہ صحابہ کرامؓ انہیں وہاں سے ہٹانا چاہتے تو آپ ﷺصحابہؓ کو اشارے سے منع فرما دیتے کہ انہیں نہ ہٹاؤ۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جب وہ پیٹھ مبارک پر سوار ہوجاتے تو آپ ﷺسجدہ طویل فرمادیتے۔ حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ پھر ان دونوں سے فرماتے: کتنی ہی اچھی ہے تمہاری سواری! (مسند ِابی یعلیٰ الموصلی، مجمع الزوائد)
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے: جس شخص کو اس بات سے خوشی ہو کہ وہ کسی جنتی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ حسینؓ بن علیؓ کو دیکھ لے۔ (مسند ِابی یعلیٰ موصلی: 3؍ 397،ورجالہٗ رجال الصحیح)
آپﷺ بعض اوقات حضرت امام حسینؓ کو اپنے سینے سے چمٹالیتے، انہیں چومتے اور پھر انہیں پیار سے سونگھتے (جیسے کوئی پھول کو سونگھتا ہے)۔ (فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبلؒ) اور آپﷺ فرماتے: حسنؓ و حسینؓ کے دم سے تو میری دنیا میں بہار ہے۔ (صحیح بخاری: 5994)
آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ بھی آپﷺ کے محبوب نواسے سیّدنا حضرت امام حسین ؓ سے بہت محبت فرماتے اور ان کے مقام و مرتبے کا پاس رکھتے تھے۔سیدنا حضرت ابوبکر ؓ حضور اکرمﷺ کے ساتھ خصوصی تعلق و محبت کی وجہ سے خاندانِ نبوت کا بہت پاس فرمایا کرتے اور ان کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ فرمایا کرتے تھے ۔ترجمہ : ’’ تم اہل ِبیتؓ کے بارے میں رسول اللہﷺ کے حق کی رعایت کرو۔‘‘(کتاب : فضائل اصحاب النبیؓ، باب مناقب قرابۃ رسول اللہﷺ ، صحیح بخاری : 3713)
نورالابصار میں آپؓ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے: ’’رسول اللہﷺ کی قرابت کے ساتھ حسنِ سلوک مجھے اپنی قرابت کے ساتھ حسنِ سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (بحوالہ : شہید کربلاؓ المعروف فاطمہؓ کا چاند) حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے ان ارشادات کا عملی ثبوت حضور اکرمﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺکے گھرانے کے ساتھ اپنے حسنِ سلوک سے پیش کیا، خصوصاً آپؓ ، حضور اکرمﷺ کے نواسوں سے بہت محبت فرماتے تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ بھی آپؓ سے بہت محبت و شفقت فرمایا کرتے تھے اور آپؓ کا خاص خیال رکھا کرتے ، حضرت عمر فاروقؓ اپنی اولاد سے بڑھ کر حضوراکرمﷺ کے نواسوں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؓ نے اسی قرابت ِنبوی کا پاس رکھتے ہوئے حضرات حسنین کریمینؓ کا سالانہ وظیفہ بدری صحابہ کرامؓ کے برابر مقرر کر رکھا تھا۔ گویا حضرت عمر فاروقؓ نے ان دونوں شہزادوں کو اصحاب ِبدر ؓکا درجہ دیا۔ (ابن ِعساکر)
حضرت عثمان غنیؓ، حضرت امام حسینؓ کے دوہرے خالو تھے، کیونکہ آپ ؓ کی دو بڑی خالائیں حضرت رقیہ و ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہما بناتِ رسول، حضرت عثمان غنیؓ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئی تھیں۔ اس رشتے سے بھی حضرت عثمان غنیؓ کو آپ ؓسے محبت تھی جس کی ایک جھلک اس واقعے سے نظر آتی ہے ، رجب ۲۶ہجری میں حضرت عثمان غنیؓ اور آپ کے دونوں بھانجے حسنؓ و حسینؓ عمرہ کے سفر پر اکٹھے روانہ ہوئے۔ دورانِ سفر مقام ’’السقیا‘‘ میں حضرت حسینؓ بیمار ہوگئے۔
حضرت عثمان غنیؓ نے فوراً حضرت علی ؓکو حضرت امام حسینؓ کی بیماری کی اطلاع بھجوائی اور خود ان کی تیمارداری کے لیے ان کے پاس رکنے کا ارادہ کیا،لیکن حضرت امام حسینؓ نے اپنے خالو جان کو قسم دے کر فرمایا کہ آپ باقی قافلے کو لے کر عمرہ کے لیے روانہ ہوجائیں۔
محض میری خاطر خود کو عمرہ کی سعادت سے محروم نہ کریں، چنانچہ حضرت امام حسینؓ کے اصرار پر حضرت عثمان غنیؓ کو وہاں سے روانہ ہونا پڑا، لیکن انہوں نے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کو حضرت امام حسینؓ کی تیمارداری کے لیے ان کے پاس رکنے کا فرمایا، بعد میں حضرت علیؓ مدینہ طیبہ سے ان کے پاس پہنچ گئے اور کچھ دنوں بعد حضرت عثمان غنیؓ بھی عمرہ ادا کرکے واپس تشریف لے آئے اور حضرت علیؓ سے کہا کہ میں تو اپنے بھانجے کے پاس رکنا چاہتا تھا، مگر انہوں نے ہی نے مجھے قسم دے کر یہاں سے بھیج دیا۔ (الثقات لابن حبان، 2؍246)
آپؓ کے والد گرامی امیرالمؤمنین سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’میرے کنبے میں سب سے زیادہ مشابہت جسے مجھ سے ہے وہ حسینؓ ہیں۔‘‘ (ابن ِعساکر)
مؤذّنِ رسول سیّدنا حضرت بلال حبشی ؓ، آپﷺ کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ چھوڑ کر شام جابسے تھے، ایک روز خواب میں حضور اکرمﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺان سے فرمارہے تھے کہ کیا بات ہے، آپ میری ملاقات کو نہیں آتے؟ حضرت بلالؓ نیند سے بیدار ہوئے تو مدینہ منورہ حاضری کا قصد کیا، وہاں پہنچ کر روضۂ اطہر پر حاضری دی، اتنے میں حضرات حسنینؓ تشریف لے آئے، حضرت بلالؓ نے انہیں دیکھا تو اپنے سے لپٹالیا اور پیار سے چومنے لگے۔ (اسدالغابۃ)
حضرات حسنینؓ ایک جنازےکے ساتھ جارہے تھے، راستے میں تھک کر بیٹھ گئے، حضرت ابو ہریرہ ؓ نے دیکھا تو ان کے قریب آئے اور اپنے کپڑے سے حضرات حسنینؓ کے قدموں کی گرد جھاڑنے اور انہیں صاف کرنے لگے۔ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا: یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: اس میں کیا حرج ہے؟ خدا کی قسم! آپ کے متعلق جتنا علم مجھے ہے، دوسروں کو ہوتا تو آپ کو لوگ اپنی گردنوں پر اٹھائے پھرتے (یعنی آپ کو کہیں پیدل تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں پڑتی)۔ (تاریخ کبیر، سیر اعلام النبلاء)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرات حسنینؓ کی سواری کی رکاب پکڑتے اور انہیں سوار کراتے اور فرماتے: یہ دونوں فرزند ِرسول ہیں۔ ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ تو ان دونوں سے عمر میں بڑے ہیں اور ان کے بزرگ بھی ہیں، پھر آپ ان کی سواری کی رکاب کیوں تھامے ہوئے ہیں؟ تو حضرت ابن ِعباسؓ نے فرمایا: یہ دونوں حضور اکرمﷺ کے فرزند ہیں، ان کی سواری کی رکاب تھامنا میرے لیے سعادت ہے۔ (تاریخ کبیر)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ مسجد ِنبوی میں تشریف فرما تھے، اتنے میں حضرت امام حسینؓ تشریف لے آئے، انہوں نے آکر حاضرین مجلس کو سلام کیا، لوگوں نے سلام کا جواب دیا، حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے خصوصیت کے ساتھ بلند آواز سے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور ساتھ ہی فرمایا: کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ زمین سے لے کر آسمان تک سب سے زیادہ محبوب شخصیت حضرت حسینؓ ہیں؟ سب لوگوں نے جواباً کہا: جی ہاں! (اسدالغابۃ)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓکعبۃ اللہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اتنے میں انہیں حضرت امام حسینؓ آتے نظر آئے تو آپؓ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: آج آسمان اور زمین میں ان سے بہتر کوئی دوسرا نہیں ہے۔ (الاصابۃ)
مدینہ طیّبہ کے خواص و عوام سیّدنا حضرت امام حسینؓ کی برابر تعظیم و تکریم کرتے اور آپ کی مجلس میں اسی طرح باادب بیٹھتے جیسے آپؓ کے نانا حضور اکرمﷺ کی خدمت میں مؤدّب حاضر ہوتے تھے۔ ایک بار حضرت امام حسینؓ اپنے بڑے بھائی جان سیّدنا حضرت امام حسن مجتبیٰؓ کے ساتھ حج کو پیدل جارہے تھے، راستے میں جو بھی حاجی ان حضرات کو پیدل چلتے دیکھتا تو وہ بھی ان کے احترام میں اپنی سواری سے اتر کر پیدل چلنے لگتا، حتّٰی کہ بہت سارے لوگ اس پر عمل کرنے لگے، لیکن ظاہر ہے کہ اس سے بعض لوگوں کو شدید مشقت کا سامنا کرنا پڑا، مگر دوسری جانب انہیں فرزندانِ رسول کا احترام بھی ملحوظ تھا، چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے تمام حاجیوں کی طرف سے نمائندہ بن کر ان سے درخواست کی کہ آپ حضرات بھی سواری پر سوار ہوجائیں ،ورنہ لوگ آپؓ کے احترام میں پیدل چلتے رہیں گے۔
ان حضراتؓ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ہم تو پیدل حج کا عہد کرچکے ہیں، اس لیے سوار نہیں ہوسکتے، البتہ آپ لوگوں کی تکلیف کے خیال سے ہم اپنا راستہ تبدیل کرلیتے ہیں، چنانچہ حضرات حسنینؓ اس راستے پر ہو لیے جہاں لوگوں کی نظر ان پر نہ پڑسکے۔ (ریاض الجنان)
حضرت امام حسینؓ کہیں پیدل تشریف لے جارہے تھے، راستے میں ایک انصاری صحابی حضرت نعمان بن بشیرؓ سے ملاقات ہوگئی، وہ اپنی سواری پر تھے، وہ آپ کو دیکھ کر اتر پڑے اور درخواست کی کہ آپ میری سواری پر سوار ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا: سواری آپ کی ہے ، لہٰذا آپ ہی کو سوار ہونا چاہیے۔ حضرت نعمانؓ نے فرمایا: میں نے اپنے والد سے یہ روایت سنی ہے کہ مالک کی اجازت سے سوار ہونا جائز ہے۔ یہ سن کر حضرت حسینؓ ان کی سواری پر سوار ہوگئے اور حضرت نعمانؓ آپ کے پیچھے بیٹھے۔ (ابن ِعساکر)
جب نجران کے عیسائیوں کا وفد حضور اکرمﷺ سے مباہلہ کرنے آیا اور آپﷺ اپنے اہل بیتؓ (جن میں سیّدنا حضرت امام حسینؓ بھی شامل تھے) کو لے کر نکلے، ان لوگوں نے دیکھا کہ آپﷺ حضرت امام حسین ؓ کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے ہیں تو عیسائیوں کے بڑے نے اپنے لوگوں سے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو قسم ہے! پہاڑ کو ہلتے دیر نہیں لگے گی، اس لیے تم ان سے مباہلہ نہ کرو، ورنہ ہلاکت میں پڑ جاؤ گے اور ایک بھی عیسائی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔ (نورالابصار)
سیّدنا حضرت امام حسینؓ کی پاکیزہ زندگی کے بے شمار واقعات میں سے چند درخشاں پہلو سامنے لائے گئے ہیں، یہ شہید کربلا حضرت امام حسینؓ کی سیرت و کردار اور فضائل و مناقب کے وہ روشن نقوش ہیں کہ جن سے ایک طرف آپؓ کی عظمت و رفعت کا پتا چلتا ہے اور دوسری جانب حضور اکرمﷺ کے اپنے محبوب نواسے کے ساتھ اورآپﷺ کے صحابہ کرامؓ کے اپنے محبوب پیغمبرﷺ کے محبوب فرزند کے ساتھ پیار و محبت کے تعلق کو بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس ایمانی محبت کے ثمرات سے مالا مال فرمائے ۔ (آمین)
(ریاض ندیم نیازی)
پہچان لی ہے جس نے بھی عظمت حسینؓ کی
نکلے گی اُس کے دل سے نہ اُلفت حسینؓ کی
دل میں ہر اِک نفس رکھو اُلفت حسینؓ کی
انساں کو بخشتی ہے یہ جرأت حسینؓ کی
حق اب بھی سرفراز ہے باطل کے سامنے
یہ فیض ہے حسینؓ کا ، برکت حسینؓ کی
بعد از غمِ حسینؓ کوئی غم نہیں رہا
حاصل ہوئی ہے ایسے نسبت حسینؓ کی
برباد ہو کے رہ گئے باطل پرست سب
باطل پہ اِس طرح پڑی ضربت حسینؓ کی
دنیا میں سر اُٹھائے گی جب بھی یزیدیت
انسان کو پڑے گی ضرورت حسینؓ کی
رکھے گی سر بلند ، سفیرانِ حق تمہیں
حاصل ہوئی ہے تم کو قیادت حسینؓ کی
تاریخِ کربلا کا تسلسل ہے یہ ندیمؔ
تاریخ میں ہے درج شجاعت حسینؓ کی