• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میری شادی کو گیارہ سال ہوگئے ہیں، تین بچے ہیں، شوہر شراب اور دیگر نشوں کی لت میں مبتلا ہے، لڑائی جھگڑے معمول رہا، بالآخر معاملہ عدالت تک پہنچا ، شوہر کے سامنے عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کی ، شوہر عدالتی خلع کو نہیں مان رہا۔ 

اس سارے معاملے کو ایک سال گزرچکا ہے، شوہر مُصر ہے کہ طلاق نہیں دوں گا اور خرچ بھی نہیں دیتا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرح ہٹ دھرمی پر اتر آئے، توکیا عورت ساری زندگی اس کے فیصلے کے انتظار میں بیٹھی رہے گی یا عدالتی خلع اس کے حق میں جائز ہے ؟ ہمارے دین میں ایسے حالات میں کیا حکم دیاگیاہے ،جب مرد کسی کی بات سننے کے لیے راضی نہ ہو، برائے مہربانی شرعی رہنمائی فرمائیں ،(ارجمند نذیر، کراچی)

جواب: عام حالات میں خلع زوجین کی باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے ،جس میں بیوی اپنے مہر کے حق سے دست بر دا رہو کر کہے : ’’تم مجھے اس کے عوض خلع دے دو اور شوہر اس کے مطالبے کو قبو ل کر تے ہو ئے کہے: میں نے تمہیں خلع دیا ‘‘، یہ خلع ہے اور طلاق بائن کے حکم میں ہے، البتہ اگر شوہر طلاق دینے یا خلع پر آمادہ نہ ہو اور جج اپنی نگرانی میں دونوں خاندانوں کے ایک ایک بزرگ یا بااثر شخص کو ثالث بناکر انھیں بٹھائے اور کہے: ترجیحی طور پر کوشش کرو کہ نباہ کی کوئی صورت پیدا ہوجائے اور اگر کسی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے ،تو ’’تَسْرِیْحٌ بِاحسَان‘‘ کرلو، بیوی مہر سے دست بردار ہوجائے اور شوہر اسے رضامندی سے خلع دے دے، تو قرآن کریم کی رو سے یہ عدالت کا ایک قابلِ تحسین عمل ہوگا۔

بنیادی طور پر عدالت کا اختیار ’’فسخِ نکاح‘‘ کا ہوتا ہے۔ قاضی کو عورت کے دعوے، دلائل اور شواہد سے جب یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ شوہر ظالم ہے ، بیوی کو نان نفقہ نہیں دیتا، مار پیٹ کرتاہے اور اس کے حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرتا، ایسی صورت حال میں قاضی یا جج نکاح کو فسخ کردیتا ہے اور زوجین میں تفریق کردیتا ہے، یہ طلاقِ بائن کے حکم میں ہے۔

شیخ المالکیہ اور شیخ الجامعہ الازہر نے گیارہ معاشرتی مسائل میں امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے مذہب کی نصوص پر مشتمل ایک فتویٰ جاری کیا، جس کی جامعۃ الازہر کے تمام علماء نے توثیق کی، ان میں حنفی علماء بھی شامل ہیں، اس فتویٰ کو مصر کی وزارتِ اوقاف نے فتاویٰ اسلامیہ میں شائع کیا ہے۔ اس فتویٰ میں علمائے ازہر نے فقہ حنفی سے اس پر تصریحات پیش کی ہیں کہ ضرورت کے وقت دوسرے مذہب پرعمل کیاجاسکتا ہے۔

مفتی مالکیہ اورشیخ الجامعہ الازہر نے جن گیارہ صورتوں میں عورت کو خاوند سے طلاق حاصل کرنے کا حق مالکی مذہب کے مطابق بیان کیاہے ،ان کی بابت علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’ گیارہویں صورت وہ ہے ، جس میں خاوند کے ظلم اور ضرر کی بناء پر قاضی کو طلاق دینے یا نکاح فسخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان دس صورتوں کی دلیل قرآن کریم (سورۂ بقرہ) کی یہ آیت ہے : ترجمہ:’’ اپنی عورتوں کو حسنِ سلوک سے اپنے نکاح میں رہنے دو، ورنہ شائستگی سے رخصت کردو اور اُن کو ضرر پہنچانے کے قصد سے نکاح میں روکے نہ رکھو تاکہ تم اُن پر زیادتی کرو اور جو شخص ایسا کرے گا، وہ اپنی ہی جان پر ظلم کرے گا ،(سورۃ البقرہ:231)‘‘۔

پس عورت کو نفقہ نہ دینا بھی ضرر اور زیادتی ہے اور اس پر ظلم کرنا بھی ضرر اور زیادتی ہے اور اگر خاوند اس ضرر اور زیادتی سے بازنہ آئے، تو حکام پر واجب ہے کہ ان کے درمیان تفریق کردیں ، (شرح صحیح مسلم، جلد3،ص:1109)‘‘۔

پس صورتِ مسؤلہ میں اگرآپ کا دعویٰ درست ہے کہ شوہر نشے کاعادی ہے اوروہ طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں ، عدالت میں پیشیوں پر حاضر بھی ہواہے اور آپ نے عدالتی کارروائی کے ذریعے اپنا نکاح فسخ کرالیا ہے تو یہ فسخِ نکاح درست ہے۔ البتہ جج پر لازم ہے کہ وہ اس الزام کو متحقق کرلے اور اس کی صورت یہ ہے کہ شوہر اعتراف کرلے کہ وہ نشے کا عادی ہے اور اگر شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو تو عورت سے اس دعوے کی صداقت پر شرعی گواہ طلب کرے اور پھر اپنے فیصلے میں ان حقائق کو درج کرکے ان کی بناءپر نکاح کو فسخ کرے تو وہ شرعاً مؤثر ہے، لیکن شواہد طلب کیے بغیر محض مجرّد دعوے پر جج کا نکاح فسخ کردینا شرعاً درست نہیں ہوگا ، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ فیملی کورٹ کے جج صاحبان کی ثقہ مفتیانِ کرام سے باقاعدہ تربیت کرائے، تاکہ ان پر اس کی اہمیت واضح ہوکہ یہ حلال وحرام کا مسئلہ ہے۔( واللہ اعلم بالصواب )