• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر نعمان نعیم

’’استسقاء ‘‘کے معنی ہیں بارش یا سیرابی مانگنا۔ شریعت میں دعائے بارش کو استسقاء کہتے ہیں جوضرورت کے وقت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو جن نعمتوں سے سرفراز کیا ہے،وہ بے شمار ہیں، ان میں کچھ نعمتیں روحانی ہیں اور کچھ مادی ہیں ، یہ مادی نعمتیں انسانوں کی اس بستی میں جینے اور رہنے کے لئے ناگزیر ہیں ، ان ضرورتوں میں سب سے اہم ہوا اورہوا کے بعد پانی ہے۔

قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی جن نعمتوں کابار بار ذکر کیا ہے ، ان میں ایک پانی بھی ہے، بلکہ فرمایا گیا کہ ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی ہی سے پیدا کیا ہے ۔(سورۃ الانبیاء : ۳۰) انسان کی زندگی کامدار تو پانی پر ہی ہے ، جتنے بھی ذی روح جانور ہیں ، ان کی زندگی کابقاء بھی پانی ہی پر منحصر ہے، چوںکہ مادۂ تخلیق میں بھی پانی کا ایک جزء موجود ہوتا ہے ، اسی لئے قرآن نے انسانی نطفہ کو بھی ’’ ماء دافق ‘‘ یعنی اچھلتے ہوئے پانی سے تعبیر کیا ہے۔ (سورۃالطارق : ۶) اور یہ بھی فرمایا گیا کہ تمام جاندار کی تخلیق اصل میں پانی ہی سے ہوئی ہے۔(سورۃ النّور : ۴۵) 

نباتات کا تو وجود ہی پانی پر موقوف ہے کہ اسی سے زمین سے کونپلیں نکلتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ سایہ دار درختوں اورلہلہاتے ہوئے سر سبز پودوں کے سانچے میں ڈھل جاتی ہیں ۔ جو جمادات ہیں، وہ بھی پانی سے بے نیاز نہیں، چاہے زمین ہو یا نمو پذیر زندہ پتھر ہوں، سب کو پانی کی ضرورت ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین جب مردہ ہو جاتی ہے تو آسمان سے آبِ حیات بن کر بارش اس سے ہم آغوش ہوتی ہے اور اس طرح اس کے لئے زندگی کا ایک نیا سروسامان مہیاکرتی ہے، پھر اللہ کی قدرت دیکھئے کہ انسان کے لئے کس طرح پانی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ 

صحراؤں اور ریگستانوں کو چوںکہ اپنی بقاء کے لئے پانی کی چنداں ضرورت نہیں ، اس لئے وہاں کم سے کم بارش ہوتی ہے ، جہاں سر سبز وشاداب کھیت ہوں ، درخت اور جنگلات ہوں ، وہاں پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے کہ ان کا بقاء پانی ہی پر موقوف ہے ، اس لئے یہاں بادل کی نگاہ التفات بھی بڑھ جاتی ہے ، غالباً اللہ تعالیٰ کے اسی نظام ربوبیت کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ پودوں اور جانوروں کی وجہ سے اللہ بارش نازل فرماتا ہے، چوںکہ جہاں درخت اورجنگلات ہوتے ہیں، وہیں پالتو اور جنگلی، چلنے والے اور رینگنے والے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی بہتات ہوتی ہے۔

یہ پانی کا ظاہری اور نظر آنے والا نظام ہے ، لیکن اصل قوت اللہ کی قوت ہے ، جس کے اشارے اور حکم سے ہی انسان کو کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے اور وہ کسی نعمت سے محروم کیا جاتا ہے ، اب یہی دیکھئے کہ سمندر کے پانی کی حرارت اور سورج کی تپش کم و بیش ہمیشہ رہتی ہے ، ہوائیں بھی ایک طرف سے دوسری طرف اپنا سفر جاری رکھتی ہیں ، بادل بھی فضاء میں جگہ جگہ اپنے گھروندے بنائے رہتا ہے، سوکھی ہوئی زمین اور نیم مردہ درخت ہر سال موسم گرما میں آسمان کی طرف دست سوال پھیلائے رہتے ہیں ؛ لیکن کسی سال معتدل بارش ہوتی ہے ، کسی سال ضرورت سے زیادہ اور کسی سال خشک سالی اور قحط کی وجہ سے زمین قطرہ قطرہ کو ترس جاتی ہے ، یہ وہی مشیّت خداوندی کا کرشمہ ہے کہ جب اس کی مشیّت نہیں ہوتی تو ظاہری اسباب کے موجود ہونے کے باوجود مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔

شدید گرمی اور قحط کی جس کیفیت سے دو چار ہیں، اس سلسلے میں ایک طرف تو ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہئے کہ کہیں ہماری بد اعمالیاں تو اللہ کی اس پکڑ کا باعث نہیں ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا کرنا چھوڑ دیتی ہے تواس سے بارش روک لی جاتی ہے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں حساب کے ساتھ پوری زکوٰۃ ادا کرنے والوں کا تناسب کم ہے ، اگر تمام صاحب نصاب مسلمان اپنی پوری زکوٰۃ ادا کریں تو اس ملک میں کوئی بھوکا مسلمان نہ رہے۔ 

حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی گروہ آمادۂ ظلم و جور ہوجاتا ہے تو اس پر آسمانی آزمائشیں مسلط کر دی جاتی ہیں ، جیسا کہ اہل مکہ پر قحط نازل کیا گیا تھا ، ظاہر ہے ہمارے ملک میں جس بے دردی کے ساتھ انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے ،ایسی قوم پر اللہ کے عذاب کے لئے کسی اورحجت کی ضرورت ہے؟ یہ تو ایسے واقعات ہیں کہ اگر آسمان کی آنکھیں خون کے آنسو برسائیں تب بھی تعجب نہیں ہونا چاہئے۔

یہ تو اپنے احتساب کا پہلو ہے ، دوسرا پہلو اللہ سے مانگنے اور رب کائنات سے رجوع کرنے کا ہے ، اللہ تعالیٰ نے نماز اور صبر کو اللہ سے مدد مانگنے کا ذریعہ و وسیلہ قرار دیا ہے ۔(سورۃ البقرۃ : ۱۵۳) رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی عملی تطبیق فرمائی ہے کہ ہر ضرورت کے لئے آپ ﷺ نے نماز رکھی ، کوئی خوشی کی بات پیش آئے تو نمازِ شکر ، کسی مسلمان کی موت ہو جائے تو استغفار کے لئے نمازِ جنازہ ، کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو نماز توبہ ، کسی معاملے میں خیر و شر اور نفع و نقصان سمجھ میں نہ آتا ہو ، تو نمازِ استخارہ ، سورج گرہن ہو تو نمازِ کسوف ، چاند گرہن ہو تو نمازِ خسوف ، کوئی ضرورت در پیش ہو تو نمازِ حاجت ، اسی طرح اگر بارش رُک جائے تو نمازِ استسقاء ۔

رسول اللہ ﷺنے استسقاء یعنی اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنے کے لئے نماز بھی پڑھی ہے اور صرف دُعا پر بھی اکتفا فرمایا ہے ، ایک بار آپ ﷺ خطبۂ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک دیہاتی آیا ، اس نے عرض کیا کہ مویشی ہلاک ہو رہے ہیں اور بال بچے بھوکے مر رہے ہیں ، آپ اللہ تعالیٰ سے بارش کے لئے دُعا مانگئے ، آپ ﷺ نے تین بار دُعا کی کہ اے اللہ ! ہمیں بارش عطا فرما ، اس وقت آسمان بالکل صاف تھا، لیکن آپ ﷺ کی دُعا ایسی قبول ہوئی کہ فوراً بادل ظاہر ہوا اور چھ دن تک بارش ہوتی رہی، اگلے جمعہ جب آپ ﷺ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے ، تو پھر وہی دیہاتی یا کوئی اور شخص عرض کناں ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ! گھر گر رہے ہیں اور جانور غرقاب ہو رہے ہیں، آپ ﷺدُعا فرمایئے کہ بارش تھم جائے، آپ ﷺنے دُعا فرمائی کہ ہمارے گرد بارش ہو ، ہم پر نہ ہو،چنانچہ مدینہ پر بارش تھم گئی اور گرد و پیش بارش کا سلسلہ ایک ماہ کے قریب جاری رہا۔ (صحیح بخاری) 

حضور اکرمﷺ نے ہاتھ اُٹھا کر بارش کے لئے دُعا فرمائی تھی اور آپ ﷺ کے ساتھ تمام لوگوں نے ہاتھ اُٹھا کر دُعا کی، حالاںکہ خطبہ میں ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنے کا معمول نہیں تھا ، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دست ِمبارک اتنا اونچے اُٹھائے کہ بغل کی سفیدی نظر آتی تھی۔ (صحیح بخاری) حضور ﷺ کے اسی عمل کی بناء پر امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک استسقاء کے لئے نماز پڑھنا ہی ضروری نہیں ، دُعا پر بھی اکتفا کیا جاسکتا ہے ۔ (رد المحتار : ۳ ؍۷۱)

بہتر یہ ہے کہ دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ نماز استسقاء بھی پڑھی جائے ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت نماز بھی خاص اس مقصد کے لئے ادا فرمائی ہے ، متعدد حدیثوں میں اس کا ذکر موجود ہے ، اکثر فقہاء اور امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ مستحب ہے ، نماز استسقاء دورکعت ہے ، جس میں زور سے قرأت کی جائے گی ، عبادبن تمیم نے اپنے چچا کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ کا یہی عمل نقل کیا ہے ۔ (صحیح بخاری)

نماز کے بعد زمین پر کھڑے ہو کر اور عصا کاسہارا لے کر عید کی طرح دو خطبے دیئے جائیں ، یہ رائے فقہائے حنفیہ میں امام محمدؒ کی ہے اور اسی کے قائل مالکیہ اور شوافع ہیں ، (رد المحتار: ۱؍ ۷۱، الفقہ الاسلامی وادلۃ : ۲ ؍ ۴۲۰) کیوںکہ متعدد حدیثوں میں خاص کر عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے نقل کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے نمازِ عید کی طرح نمازِ استسقاء ادا فرمائی ہے، اس خطبےمیں زیادہ تر استغفار کے کلمات کہے جائیں اور جیسے خطبۂ عیدین میں کلماتِ تکبیر بار بار کہے جاتے ہیں ، اس میں استغفار کیا جائے، کیوںکہ یہ موقع ہی اللہ تعالیٰ سے استغفار کا ہے، یہ رائے حنفیہ میں حضرات صاحبینؒ کی ہے۔ (الفقہ الاسلامی وادلۃ : ۲ ؍ ۴۲۰) اور امام شافعیؒ کے نزدیک تو جیسے خطباتِ عیدین میں تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں ، اسی طرح استسقاء کے خطبۂ اولیٰ میں نو بار اور خطبۂ ثانیہ میں سات بار کلمہ استغفار کہنا مستحب ہے ۔  (حوالۂ سابق : ۲؍ ۴۲۱)

خطبہ شروع کرنے کے بعد جب کچھ حصہ گزر جائے ، تو امام اپنی چادر کی ہیئت بدل دے ، اگر کپڑا چوکور ہو ، تو اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر کر دے اور گول ہو تو دائیں طرف کا حصہ بائیں اور بائیں طرف کا حصہ دائیں کر دے ، لیکن یہ صرف امام کرے ، مقتدیوں کو اس طرح نہیں کرنا چاہئے، عبد اللہ بن زید ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی ردائے مبارک کی ہیئت اسی طرح تبدیل فرمائی ہے ، (صحیح بخاری) یہ چادر کا پلٹنا گویا زبان حال سے اللہ کے سامنے اپنی عرض داشت پیش کرنا ہے ، کہ قحط کی حالت کو اسی طرح بدل دیجئے۔

نماز کے لئے جاتے ہوئے بہتر ہے کہ ننگے پاؤں ہوں ، جسم پر نئے کپڑے نہ ہوں ، بلکہ پرانے دھلے ہوئے، یاپیوند لگائے ہوئے کپڑے ہوں، جبین ندامت سے جھکی ہوئی ہو، دل میں خشیت ہو اور ظاہر میں بھی اللہ کے سامنے تذلّل اور درماندگی کا اظہار ہو ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ جہاں کہیں ہو، تو بہتر ہے کہ نماز استسقاء آبادی سے نکل کر میدان میں کھلی جگہ ادا کی جائے ، ( الدرالمختار مع الرد : ۳ ؍ ۷۲) یہ بھی مستحب ہے کہ نماز استسقاء کے موقع سے بوڑھوں اور بچوں کو بھی ساتھ رکھاجائے، بلکہ یہ بھی کہ بے زبان جانور بھی ساتھ ہوں۔ (ردالمختار : ۳ ؍ ۷۲) ان کمزوریوں کو دیکھ کر اللہ کا دریائے رحمت جوش میں آجائے ۔

اگر بارش نہ ہو تو مسلسل تین دن نماز ادا کی جائے ، یہ بھی بہتر ہے کہ نماز استسقاء پڑھنے سے پہلے تین دنوں تک لوگ روزہ رکھیں اور توبہ کا خوب اہتمام کریں، نیز اگر کسی کا حق غصب کئے ہوئے ہوں، تو حق ادا کر دینے کی کوشش کریں۔ (در مختار و رد المحتار : ۲ ؍ ۷۲) اس نماز کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ لیکن امام ابو داؤد نے حضرت عائشہ صدیقہؓسے جو روایت نقل کی ہے، اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سورج نکلتے وقت نمازِ استسقاء کے لئے تشریف لے گئے ۔ ( ابو داؤد ، باب رفع الیدین فی الاستسقاء) اس لئے ظاہر ہے کہ اس وقت نمازِ استسقاء ادا کرنی زیادہ بہتر ہے، اس کا بھی اہتمام کرنا چاہئے کہ نماز میں سماج کے دین دار لوگوں کو شامل رکھا جائے، حضرت عمرؓ نے خاص طور پر حضرت عباس ؓ کو اور حضرت معاویہ ؓنے ابن اسودؓ کو نماز استسقاء میں شامل رکھا تھا اور انہی سے دُعا کرائی تھی۔

امام خطبہ کے درمیان بارش کے لئے دُعاء کرے گا اور دُعاء کے وقت اپنا رُخ قبلہ کی طرف کر لے گا ، جیسا کہ گزرا ہاتھ اُٹھا کر دُعا کرے گا اور لوگ اس کی دُعا پر آمین کہتے جائیں گے ، استسقاء کے لئے رسول اللہ ﷺ کی مختلف دُعائیں منقول ہیں، غالباً سب سے مختصر دُعا وہ ہے جسے امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ، تین بار : ’’ اللھم أغثنا‘‘ کے الفاظ، یہاں ایک تفصیلی دُعا کا نقل کر دینا بھی مناسب ہوگا ، جسے امام ابو داؤد نے نقل فرمایا ہے :’’اللّٰھم اسقنا غیثاً مغیثاً مرئیاً مریعاً نافعاً غیر ضار عاجلاً غیر اٰجل ، اللّٰھم اسق عبادک وبہائمک وانشر رحمتک وأحی بلدک المیّت ‘‘۔ ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۱۱۶۹، ۱۱۷۶)

اے اللہ ! ہمیں بارش سے سیراب فرما ، ایسی بارش جو ہماری فریاد کو پوری کرے ، ہلکی پھواریں ، غلّہ اگانے والی ہوں ، نفع دینے والی نہ کہ نقصان پہنچانے والی ، جلد آنے والی نہ کہ دیر لگانے والی ، خدا وندا ! اپنے بندوں اور جانوروں کو سیراب کر ، اپنی رحمت کو پھیلا اور اپنے مُردہ شہروں کو زندہ کر دے ۔