• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈراموں میں فرضی کرداروں کے درمیان نکاح وطلاق کا شرعی حکم

تفہیم المسائل

سوال: ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں اکثر دیکھا گیا ہے : ’’لڑکا اور لڑکی محفل میں موجود ہوتے ہیں، اُن کا نکاح دکھایا جاتا ہے، اس میں حقِ مہر کا ذکر ہوتا ہے اور مجلس میں باقاعدہ ایجاب وقبول ہوتا ہے‘‘، کیا شریعت کی رُو سے یہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے یا اسے محض ڈرامہ نگاری اور اداکاری پر محمول کر کے سب کو اس کی چھوٹ دے دی جائے، اس کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں۔ اسی طرح لڑکی، لڑکے کو ڈراموں میں میاں بیوی دکھایا جاتاہے ، جس میں وہ اسے طلاق بھی دیتا ہے ، اس سب کی شرعی حیثیت کیاہے ؟ (مفتی محمد مدنی رضا)

نیز ناروے اوسلو سے علامہ طاہر عزیز باروی نے بھی ایساہی سوال بھیجا ہے:’’آج کل ایک مسئلہ میڈیا پر بہت شدّت سے زیرِ بحث ہے کہ کوئی مرد وعورت کسی ڈرامے میں زن وشوہر کے کردار کو اداکرنے کے لیے نکاح کے ایجاب وقبول کرتے ہیں ،کیا ایسا کرنے سے ان کا شرعاً نکاح منعقد ہوجائے گا، یہ کلمات ایجاب وقبول حکایۃً ہیں یا انشاء ً، اسی طرح یہاں یورپ میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مختلف مذاہب کے بارے میں معلومات طلبہ کو فراہم کرتے ہیں ، جس میں نکاح کے بارے میں بھی معلومات ہوتی ہیں ، اگر مسلمان لڑکا اور لڑکی اس کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے ایجاب وقبول کرلیں اور ایک شخص نکاح خواں ہو ، دو گواہ بھی ہوں ،کیایہ نکاح منعقد ہوجائے گا یا محض فرضی کردار کی صورت ہوگی ؟۔

جواب: سب سے پہلے ہماری گزارش ہے : ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں نکاح اور طلاق کے موضوع کو زیرِ بحث نہ بنایا جائے ، یہ سنجیدہ شرعی معاملات ہیں، نکاح سنّتِ رسول ہے ، شریعت کا مطلوب ہے ، ایک مُقدّس رشتہ ہے اور اس کے تعلق سے والدین اور اولاد کی طرح کئی اور رشتے قائم ہوتے ہیں، نسب کے صحیح ہونے کا ثبوت ہوتا ہے، ان رشتوں میں حقوق وفرائض کا ایک پورا نظام ہے ، رشتۂ نکاح کی تقدیس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ترجمہ: ’’جب بندے نے نکاح کرلیا ، تو آدھا دین مکمل ہوا،باقی آدھے کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے ، (شعب الایمان:5100)‘‘۔ 

آدھا دین مکمل ہونے سے مراد یہ ہے : اُن کی اولاد کو نسب کی شرافت ملی، شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے زوجین ایک دوسرےکے حقوق کو اداکریں گے تو بیوی اور اولاد میں عفت ، پاکدامنی اور حیاء کی صفات پیدا ہوں گی، خاندان کا ماحول اخلاقی پاکیزگی کا آئینہ دار ہوگا اور یہ تمام باتیں مقاصدِ شریعت میں سے ہیں، ایسے ہی کلماتِ مبارکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمائے :ترجمہ:’’ جو مجھے دو چیزو ں کے بارے میں (شریعت کی پابندی کی )ضمانت دے : ایک وہ جو دو داڑھوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اور ایک وہ جو دو ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرمگاہ) ، تو میں اُسے جنت کی ضمانت دیتاہوں، (صحیح بخاری : 6474)‘‘۔

پہلی ترجیح تو یہ ہونی چاہیے : نکاح اور طلاق کو ڈراموں کا موضوع نہ بنایا جائے ، جب سے یہ شعار پروان چڑھا ہے ، طلاق کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے، خاندانوں میں بگاڑ پیدا ہوا ہے اور اس سے کوئی خیر برآمد نہیں ہوئی ،نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’ تین کام ایسے ہیں، خواہ سنجیدگی سے کیے جائیں یا مذاق میں، منعقد ہوجاتے ہیں:نکاح ، طلاق اور رجعت ،(سُنن ترمذی: 1184)‘‘۔ یعنی اُن پر شرعی احکام مرتب ہوتے ہیں ،لہٰذا اس حدیثِ مبارک میں یہ واضح پیغام ہے کہ نکاح جیسے مُقدّس رشتے کو مذاق کا موضوع نہ بنایاجائے۔ 

اِن ڈراموں میں اجنبی مردوزن کا شریعت کی حدود سے ماورا اختلاط ہوتا ہے، انھیں کسی بھی درجے میں شرعی جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا، نوجوان نسل پر اس کے اثرات مثبت نہیں ہوتے ، اس لیے ان کا نہ دیکھنا دیکھنے سے بدرجہا بہتر ہے ، مگر آزاد روی کے اس دور میں اکثریت کو ان سے روکنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔

بعض لوگوں نے بتایا : بعض ڈراموں میں نکاح کا سکوتی منظر دکھادیاجاتا ہے، اداکارہ اور اداکار سے باقاعدہ ایجاب وقبول کے کلمات نہیں کہلائے جاتے، یہ صورت سوال میں پیش کردہ صورت کے مقابلے میں زیادہ احتیاط پر مبنی ہے۔بہرحال ان ڈراموں میں کیے جانے والے نکاح سے پہلے سے لکھے ہوئے ڈرامے کی تمثیل اورحکایت مقصود ہوتی ہے، اصل نکاح مقصود نہیں ہوتا ،یہ اس صورت کے مماثل ہے کہ نکاح وطلاق کے مسائل پڑھاتے ہوئے مُعلم یہ جملے بولتا ہے: میں نے تجھ سے نکاح کیا یا میں نے تجھے طلاق دی یا میں نے اپنی بیوی فلانہ بنت فلاں کو طلاق دی وغیرہ۔ 

یہاں تعلیم وتعلّم مقصود ہوتا ہے ، قصداً نکاح کرنا یا طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا ، اسے فقہی اصطلاح میں ’’اِنشاء ‘‘ یعنی قصداً کوئی کام کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے ، چنانچہ امام فرید الدین عالم بن عَلاء الانصاری لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور’’ ذخیرہ‘‘ میں ہے : مجلس میں کسی نے مزاح گو عورت سے کہا: یہ مصرعہ کہو :’’ میں نے خود کو تجھے دے دیا کہ تو میری جان ہے ‘‘، مزاح گو نے یہ کہہ دیا ، اس شخص نے جواباً کہا: ’’میں نے قبول کیا ‘‘، اگر اس نے بطور حکایت کہا: تو ایک قول یہ ہے کہ نکاح منعقد نہیں ہوگا، کیونکہ حکایت کے طور پر کہنے والا ایجاب (Proposal) کا قصد کرنے والا نہیں ہوتا ،(فتاویٰ تاتارخانیہ ، جلد4،ص:7)‘‘۔

علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کی قسم کا واقعہ بیان کیا ، پس جب وہ طلاق کے ذکر پر پہنچا :تو اس کے دل میں اپنی بیوی کا خیال آیا ، تو اگرطلاق کا ذکر کرتے وقت اُس نے حکایت مراد نہیں لی ،بلکہ طلاق کا ارادہ کیا اور وہ اس کے کلام کے ساتھ اس طرح ملا ہوا تھا کہ یہ جملہ اُس کی بیوی پر طلاق واقع ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا ،تو طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر ا ُس نے کسی چیز کی نیت نہیں کی ،تو طلاق واقع نہیں ہوگی ، کیونکہ پھر یہ حکایت پر محمول ہوگی ،’’فتاویٰ کبریٰ ‘‘ میں اسی طرح ہے ، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:353)‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ایک شخص نے ایک کتاب کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھا : میری بیوی کو طلاق ہے ، ساتھ ساتھ یہ الفاظ ادا بھی کیے یا کسی اور کی قسم کی حکایت بیان کی، تو اُس کی بیوی پر طلاق بالکل واقع نہیں ہوگی ، جب تک کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ نہ کرے ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ، جلد 3،ص:250)‘‘۔ لہٰذا جیسا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں لکھا: نکاح کا سکوتی تصویری منظر نامہ دکھانے پر اکتفا کی جائے ،ایجاب وقبول کے کلمات ادا کرنے سے گریز کیاجائے ، تاہم اگر قصد نہیں ہے تو محض ڈرامے میں لکھے ہوئے ایجاب وقبول کے کلمات اداکرنے سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

نیز بعض عبادات کا تعلق عمل سے ہوتا ہے، جیسے مُعلّم نماز کی تعلیم دیتے ہوئے اپنے طلبہ کو عملی طور پر قیام ، رکوع ، سجود اور قعدہ کی ہیئتیں بتاتا ہے، تو اس کی حکمت سمجھ میں آتی ہے ،لیکن نکاح میں ایجاب وقبول اور طلاق میں کوئی عمل (Action) نہیں ہوتا ،جیساکہ فقہ کی کتابوں میں یہی مسائل پڑھائے جاتے ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے: ایجاب یہ ہے کہ شوہر یا بیوی یہ کلمات کہے:’’میں نے تجھ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا‘‘ اور قبول یہ ہوتا ہے کہ شوہر یا بیوی یہ کلمات کہے :’’میں نے قبول کیا ‘‘،بس یہ کافی ہے،پس احتیاط اَولیٰ ہے۔ (جاری ہے)

اقراء سے مزید