• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آن لائن قرآن کی تعلیم اور اُس کی اجرت کا شرعی حکم

تفہیم المسائل

سوال: آن لائن قرآن کریم کی تعلیم دینا اور اُس پر اجرت لینا شرعاً جائز ہے ؟(وانیہ، کراچی)

جواب: صدیوں سے رائج طریقۂ تعلیم اپنی اہمیت وافادیت کے اعتبار سے مستنداور کامیاب ترین رہاہے۔ بہتر یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم کسی مستند قاری/قاریہ سے بالمشافہ حاصل کی جائے۔کچھ عرصے سے بذریعہ وڈیو لنک فاصلاتی نظامِ تعلیم رائج ہورہا ہے، تدریسی عمل اور بعض امتحانات کا انعقادوڈیو لنک کے ذریعے کیاجارہا ہے، جسے قبولِ عام کا درجہ حاصل ہوچکا ہے، اسی طرح عالمی کانفرنسز، حکومتی، انتظامی اور مالیاتی اداروں کے اجلاس کی کارروائی اور فیصلوں کی باقاعدہ قانونی حیثیت ہے، اعلیٰ عدالتوں میں وڈیو لنک پر شہادتیں قبول کی جارہی ہیں ، وکلاء اپنے مؤکلوں کی وکالت کررہے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے قرآن کی تعلیم دی جاسکتی ہے، لیکن اس میں یہ رعایت رکھی جائے:

1۔بالغہ بچیوں کو مرد نہ پڑھائے ، حُرمت کے شرعی احکام کی پاس داری کی جائے، اب ماشاء اللہ بڑی تعداد میں طالبات کے دینی ادارے قائم ہیں عالمات وفاضلات اور قاریات وحافظات بھی تیار ہورہی ہیں، اس لیے یہ احتیاج باقی نہیں رہا کہ مرد اساتذہ ہی بالغات خواتین کو پڑھائیں۔

2۔ بعض علماء کے نزدیک ویڈیو کالنگ تصویر کے حکم میں ہے، قرآن کی تعلیم کے لیے ویڈیو کالنگ کا استعمال نہ کیا جائے، ہاں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ ویڈیو کالنگ میں جان دار کی تصاویر سامنے نہ لائی جائیں، بلکہ ویڈیو میں قرآن مجید کو سامنے رکھ لیا جائے تو اس طرح تدریس جائز ہوگی۔

ہمارے نزدیک تعلیمِ قرآن ،حج ،امامت ،اذان اوردیگر عبادات پر اجرت لینا جائز ہے اور اس کی اصل یہ حدیث ہے: ترجمہ:’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جن چیزوں پر تم اجر لیتے ہو، اس میں اجر کی سب سے زیادہ حق دار اللہ کی کتاب ہے،(صحیح بخاری : بَابُ مَا یُعْطَی فِی الرُّقْیَۃِ عَلَیٰ أَحْیَاء ِ العَرَبِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ،جلد3،ص:92)‘‘۔

علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن محمد فرغانی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ہمارے بعض مشایخ نے اس زمانے میں تعلیم قرآن کی اجرت دینے کو مستحسن قرار دیا ہے، کیونکہ اموردینیہ میں لوگوں پر سستی غالب ہوگئی ہے اور اجرت نہ دینے میں حفظ ِ قرآن کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ،فتویٰ اسی قول پر ہے، (ہدایہ ،جلد9،ص:98)‘‘۔

علامہ محمد بن محمد بن محمود بابرتی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’اس زمانے میں تعلیمِ قرآن پر اجرت دینا جائز ہے اور فقہاء نے اس کے لیے مدت اور اجرت کے مقررکرنے کو بھی جائز کہا ہے اور اگر مدت مقررنہ کی گئی ہو تو اجرت مثلی دینے کے وجوب کا فتویٰ دیاہے ‘‘۔

مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ مُتقدمین (فقہائے کرام ) نے تعلیمِ قرآن کی اجرت لینے سے اس لیے منع فرمایا تھا کہ پہلے مُعلمین کے لیے بیت المال سے وظائف مقرر تھے، اس لیے مُعلمین اپنی ضروریات اور معاش میں مستغنی تھے، نیز اس زمانے میں محض ثواب کے لیے قرآن مجید کی تعلیم دینے کا رجحان تھا اوراب یہ بات باقی نہیں رہی ،امام ابوعبداللہ الخیر اَخزی نے کہا: اس زمانے میں امام، مؤذن اور مُعلّم کے لیے بھی اجرت لینا جائز ہے، (العنایہ شرح الہدایہ ، جلد9،ص:98)‘‘۔

قرآن پاک پڑھانے کی اُجرت لینا ، جائز و مباح ہے ، خواہ انٹر نیٹ پر پڑھایا جائے یا کسی اور ذریعے سے پڑھایا جائے ، کیونکہ متأخرین علمائے کرام نے دینی ضرورت کے پیشِ نظر تعلیمِ قرآن، امامت وغیرہ امورِ دینیہ کی خدمت انجام دینے پر اُجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے۔ البتہ اجارے کی بنیادی شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے مثلاً: وقت طے ہو ، معاوضہ طے ہو اور اجارہ درست ہونے کی دیگر ضروری شرائط پائی جانی چاہییں۔