مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
ربیع الاول کے مبارک مہینے کا آغاز ہونے والا ہے، ماہِ ربیع الاول میں ہمارے لیے یہ پیغام مضمرہے کہ ہم اپنی زندگی کی سمت درست کریں، ہماری زندگی کس حد تک سرور کونین ﷺ کی سنتوں کے موافق اور کتنی سنتوں سے دور گزر رہی ہے، اس پر غور کریں اور ہر دن ہر لمحہ حضورﷺ کی سنتوں کے موافق گزارنے کی کوشش کریں۔
حضور اکرم ﷺکی خصوصیت یہ ہے کہ آپﷺ کی بعثت سے وصال تک کا ایک ایک لمحہ صحابۂ کرامؓ نے محفوظ کردیا، پورا ریکارڈ موجود ہے، اور دلیل کے ساتھ موجود ہے،اور یہی آپ ﷺکی حیاتِ طیبہ کا جو دور ہے، اسے قرآن کریم نے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ قرار دیا ہے۔ جب کہ صحابہ کرامؓ کی زندگی کا ایک ایک نقش ’’اسوۂ حسنہ‘‘کی پیروی سے مزین تھا،وہ حضورﷺکی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کیا کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب ؓ اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات میں جب کہ زخمی تھے ، اسی دوران مختلف لوگ عیادت کے لیے آرہے ہیں، اسی دوران ایک نوجوان بھی آیا، اس نوجوان نے آکر کہا امیرالمومنین! آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خوشخبری ہو، ایک تو اس لیے کہ آپ کو رسول الله ﷺکی صحبت حاصل ہے، اور اسلام قبول کرنے میں بھی تقدم حاصل ہے، نیزجب آپ خلیفہ مقررکیے گئے تو آپ نے انصاف کیا۔ نوجوان کی یہ باتیں سن کر حضرت عمر ؓ نے فرمایا:میں چاہتا ہوں کہ یہ سب باتیں مجھ پر برابر ہو جائیں۔یہ ان کی عاجزی تھی۔
اب یہ نوجوان واپس جانے لگا تو حضرت عمرؓنے دیکھا کہ اس کا تہبند ٹخنوں سے نیچے ہے اور یہ خلافِ سنت ہے۔تو حضرت عمر ؓنے فرمایا :اس نوجوان کو واپس بلاؤ۔ نوجوان واپس آیا تو حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا: اے بھتیجے! اپنا کپڑا اونچا کر وکہ یہ بات کپڑے کو صاف رکھے گی اور اللہ کو بھی پسند ہے۔ یہ ہے حضورﷺ سے حقیقی اور سچی محبت کہ آپ ﷺکی سنتوں کی پروا اور ان کی فکر زندگی کے آخری لمحے میں بھی فراموش نہیں کی۔
حقیقی محبت یہ ہے کہ ہم حضور ﷺکی اطاعت کرنے والے بن جائیں، اور اطاعت کا جذبہ ہمارے دلوں میں وہی ہونا چاہیے جو حضرات صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں تھا۔ وہ صریح حکم کے بجائے حضورﷺ کے اشارہ ابرو کو دیکھتے تھے، اور سمجھ جاتے تھے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔
ابوداؤد شریف کی روایت میں ایک صحابی ؓفرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ کہیں سے واپسی پر ایک گھاٹی سے نیچے اترے، نبی کریم ﷺنے میری طرف التفات فرمایا، اور دیکھا کہ میرے اوپر ایک موٹی چادر تھی جو زرد رنگ میں رنگی ہوئی تھی (واضح رہے کہ زرد زعفرانی رنگ مردوں کے لیے ممنوع ہے)، نبی کریم ﷺ نے دیکھ کر فرمایا: یہ کیا چادر ہے تمہارے اوپر! یہ ایک انداز تھا، صراحتاً کچھ نہیں فرمایا، وہ صحابی فرماتے ہیں: پس میں نے آپ ﷺکی ناگواری کو پہچان لیا، میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا تو وہ چادر جسے دیکھ کر میرے محبوب ﷺنے ناگواری کا اظہار فرمایا تھا، تنور میں پھینک دی، اور جلاڈالی، پھر میں اپنے محبوب پیغمبرﷺکے پاس اگلے دن دوبارہ حاضر ہوا، تو آپﷺ نے دیکھا کہ وہ چادر میرے پاس موجود نہیں ہے، تو پوچھا، عبداللہ ! اس چادر کا کیا ہوا؟ میں نے بتایا کہ وہ تو میں نے جلا ڈالی، جو لباس آپ ﷺکو پسند نہ ہو، کیسے وہ ہمارے جسموں پر اور ہمارے گھروں میں رہ سکتا ہے! یہ تھی سچی اطاعت و محبت۔
مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی دیکھی، تو آپ ﷺنے اسے اتار کر پھینک دیا، اور فرمایا: کیا تم میں سے کوئی آدمی چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں دوزخ کا انگارہ رکھ لے! گویا کہ یہ سونے کی انگوٹھی مرد کے ہاتھ میں سونا نہیں جہنم کی آگ کا انگارہ ہے۔
اب جب اس مجلس سے رسول اللہ ﷺتشریف لے گئے تو لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ اپنی انگوٹھی اٹھالو اور اسے(بیچ کر) فائدہ اٹھاؤ۔ وہ صحابی فرمانے لگے: میرا ایمان اب کیسے گوارا کرسکتا ہے! ہر گز نہیں، اللہ کی قسم !میں اسے کبھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ یہی جذبہ صحابیاتؓ کا بھی تھا، انہیں بھی رسول اللہ ﷺکا جو حکم ملتا فوری ا س کی تعمیل ہوتی، اس میں کسی قسم کے چوں چرا کی ان کے نزدیک کوئی گنجائش نہیں تھی۔
سنن ابو داؤد کی روایت میں ایک صحابی حضرت ابواسید انصاری ؓ سے یہ واقعہ منقول ہے کہ ایک بار رسول کریم ﷺمسجد سے باہر تشریف لارہے تھے، آپﷺ نے دیکھا کہ مرد اور عورتیں راستے میں ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہورہے تھے، نبی کریم ﷺ نے یہ منظر دیکھا تو آپ ﷺ نے عورتوں سے ارشاد فرمایا: تم راستے کے بیچ میں مت چلا کرو، مردوں کے پیچھے چلا کرو اور راستے کے ایک کنارے پر چلا کرو، بس یہ جملہ ارشاد فرمایا۔ اب صحابیات کا جذبۂ اطاعت یہ تھا کہ ایک عورت دیوار کے ساتھ راستے کے بالکل کنارے پر یوں چلا کرتی تھی کہ اس کا کپڑا دیوار سے رگڑ کھاتا تھا۔
ہر مسلمان کو اپنی زندگی رسول اللہ ﷺکے احکامات کی تابعداری میں گزارنی چاہیے، رسول اللہ ﷺکے احکامات، ارشادات درحقیقت یہ بھی وحی کا درجہ رکھتے ہیں، ان کی تعمیل بھی قرآن کریم کی تعمیل کی مانند لازم ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ احرام کی حالت میں سلاہوا کپڑا پہن رکھا ہے، آپ جانتے ہیں کہ مرد احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا نہیں پہن سکتا۔
حضرت ابن مسعودؓ نے اس شخص کو منع کیا کہ احرام میں یہ کپڑا پہننا درست نہیں ہے، اس شخص نے مطالبہ کیا کہ قرآن کریم میں یہ حکم بتادیں، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے سورۂ حشر کی آیت کریمہ پڑھی ، جس کا مفہوم ہے کہ جو (حکم ) تمہیں اللہ کے رسولﷺ دیں، وہ لے لو، اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔
یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی اور کہا کہ دیکھو قرآن میں اس کی ممانعت ثابت ہے، وہ اس طرح کہ یہ آیت بتارہی ہے رسول اللہ ﷺجو حکم دیں، اسے لے لو جس سے منع کریں، اس سے رک جاؤ، تو رسول اللہ ﷺنے ہی تو احرام میں سلے ہوئے کپڑوں سے منع فرمایا ہے، تو یہ حکم قرآن سے ثابت ہوگیا۔ اللہ ہم سب کو نبی کریم ﷺسے سچی محبت اور آپﷺ کی کامل اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)