اقتصادیات، نفسیات اور دیگر علوم میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ، جسے vicious circleکہتے ہیں ۔ ایک شیطانی چکر، جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ پرانے زمانوں میں سود خور مہاجن ہوا کرتے تھے۔انہیں معلوم ہوتا تھا کہ محلے میں اس وقت کون انتہائی ضرورت مند ہے ۔کس کے گھر شادی ہے اور کہاں مرگ ہوئی ۔ ایک دفعہ کسی نے ان سے قرض لے لیا تو سود درسود کے ایک گورکھ دھندے میں پھنس گیا۔ انجام اب یہی ہوگا کہ اپنی زمین وہ مہاجن کے نام لکھے گا ۔
عام زبان میں کہا جاتا ہے کہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے ۔جس ملک میں غربت ہوگی ، وہاں کاروباری طبقے کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہو گا کہ فیکٹریاں لگا سکے ۔ اس کے نتیجے میں اشیا کی پیداوار کم ہوگی ۔ لوگوں کی آمدن کم ہوگی تو اشیا کی ڈیمانڈ بھی کم ہوگی ۔ خرید وفروخت جب نہیں ہوگی تو اس کے نتیجے میں غربت ہوگی ۔ یوں ایک شیطانی چکر وجود میں آجائے گا ۔اگر وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو لائیں گے تو وہ آپ کے وسائل لوٹنے کی کوشش کریں گے ۔
ایک عام انسان اگر اپنی جمع پونجی سے کوئی کاروبار کرتاہے اور اسے خسارہ ہو تووہ برداشت کر لیتاہے ۔اس شخص کے بارے میں سوچئے ، جس نے سرمایہ قرض لے کر کاروبار کیا ۔ اس کاروبار میں نقصان ہو گیا ، وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو سکا۔وہ دوسری بار قرض لینے گیا۔ قرض دینے والا جانتاہے کہ اب قرض لیے بغیر یہ بچنے والا نہیں ۔ وہ شرائط زیادہ سخت کر دے گا ۔دس بارہ مرتبہ قرض لے کر کاروبار میں نقصان کرنے کے بعد اب صورت حال یہ ہے کہ مہاجن یعنی آئی ایم ایف ہمارے گھر کے اندر بیٹھ کر ہمیں بتا رہا ہے کہ گھر کے معاملات کیسے چلائے جائیں گے ۔
دوسری طرف صورتِ حال یہ ہے کہ آپ کی حکمران اشرافیہ زیادہ منافع والے کاروبار بذاتِ خود کررہی ہے ۔بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں ، آئی پی پیز میں بھی ملتی جلتی صورت حال ہے ۔ بجلی پیدا ہو یا نہ ہو ، بجلی گھروں کو آپ نے ہر صورت کیپیسٹی چارجز کے نام پر ادائیگی کرنی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ بجلی اور چینی پیدا کرنے والے خود حکمران ہیں۔ یعنی جنہوں نے ہمارے معاشی مسائل حل کرنا ہیں ، ان کا ذاتی مفاد اس میں ہے کہ یہ مسائل حل نہ ہوں۔
اب اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہم ایک شیطانی چکر ، vicious circle میں نہیں پھنسے ہوئے ؟
سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری سیاست بھی پچھلے سات عشروں سے ایک شیطانی چکر میں گھو متی چلی جا رہی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں محمد نواز شریف تک ، کم و بیش آپ کے تمام بڑے سیاستدان اسٹیبلشمنٹ نے تخلیق کیے۔ بھٹو والا تجربہ ناکام ہوا اور نواز شریف کو ان کے مقابل اتارا گیا ۔ بھٹوسے جب اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوئی تو اس کے نتائج کئی عشرے تک ہمیں بھگتنا پڑے۔ نواز شریف جہاز کی سیٹ سے باندھ کر جدہ بھیجے گئے۔
عمران خان کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے ، جو بھٹو کے ساتھ ہوا ۔ خاکم بدہن انجام اگر بھٹو والا کیا تو نتائج بھی وہی ہوں گے۔ جب کسی گروہ کے ساتھ ریاست نا انصافی کرتی ہے ، بالخصوص جب اسے لٹکا دیا جاتاہے تو اس کے نتائج بہرحال ریاست کو بھگتنا ہوتے ہیں۔
تو آپ مکمل طور پر شیطانی چکروں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ2023ء میں ساڑھے چودہ ہزار ارب روپے کے بجٹ میں سات ہزار تین سو ارب روپے قرضوں کی ادائیگی اور سود کیلئے مختص کیے گئے۔
مسئلہ مگر یہ ہے کہ انتقام لینے والوں کا انتقام پورا ہو تو بات آگے چلے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عمران خان ایک نجات دہندہ ہے ۔ یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ وہ اس وقت ملک کا سب سے مقبول لیڈر ہے ۔ اس بھیانک وقت میں ، جب کشتی ڈوب رہی ہے، اسے ہر قیمت پر جیل میں ڈالے رکھنے کی حکمت حاکم ہی جانتے ہوں گے ۔ بھٹو، نواز شریف اور بے نظیر کے ساتھ ریاست سے جو کچھ وہ کرواتے رہے، اس کی حکمتیں بھی تو وہ وہی جانتے تھے۔