• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی حیدر سولنگی، کراچی

یہ گئے وقتوں کی بات ہے، خالد نامی فرمابردار بچہ اپنی نانی کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا تھا۔ ایک دن اس کے قصبے اور آس پاس کے علاقوں میں ایک ایسی وبا پھیلی ، جس کے باعث خالد کے والدین فوت ہوگئے ۔ ان کی وفات کے بعد نانی نے خالد کو اپنے پاس بلالیا۔ وہ سلائی کڑھائی کرکے کچھ کمالیتی تھیں اور خالد بھی محنت مزدوری کر کے نانی کا بوجھ ہلکا کرتا۔ اس طرح ان دونوں کا گزر بسر ہورہا تھا۔

وقت گزرتا رہا اب نانی بوڑھی اور ان کی نظر بھی کمزور ہوگئی تھی پھر بھی وہ کھانا پکانا اور گھرکے چھوٹے موٹے کام کرلیتی تھیں۔ خالد جوان ہوگیا تھا، اب گھر کی ساری ذمہ داری اس کے کندھوں پر تھی۔

گرمی کے دن تھے ۔ خالد کھیت میں ایک کسان کے پاس مزدوری کررہا تھا کہ گرمی کے سبب اس کو چکر آیا اور وہ وہیں گرپڑا۔ کسان فوراً خالد کو حکیم کے پاس لے گیا حکیم نے اس کا معائنہ کر کے دوا دی۔ دواکھانے سے اُس کی طبیعت بہتر تو ہوگئی لیکن وہ کافی کمزور ہوگیا تھا۔

حکیم نے مشورہ دیا کہ خالد ایک ماہ تک کوئی محنت مشقت والا کام نہ کرے۔

گھر میں رکھا ہوا اناج اور پیسے بھی آہستہ آہستہ ختم ہورہے تھے ۔خوراک نہ ملنے پر خالد کا پالتو کتا اور بلی بھی کمزور ہوگئے تھے۔

ایک دن ایک فقیر نے خالد کے گھر باہر صدا لگائی کہ میرے بچے بھوکے ہیں کچھ کھانے کو دے دو ۔ خالد کی نانی اماں نے گھر میں جو کچھ کھانے پینے کو تھا، سب فقیر کو دے دیا اب ان کے پاس اپنے کھانے کو کچھ نہیں تھا۔

ایسے میں بیماری کے باوجود خالد مزدوری کرنے گھر سے نکلا لیکن کہیں بھی اسے کوئی کام نہیں ملا۔ وہ مایوس ہوکر گھر آگیا۔ دوپہر کو اچانک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ نانی اماںً دروازے پر گئیں تو دیکھاکے سامنے ایک درویش بابا کھڑا ہے۔ اس نے کہا، ’’محترم خاتون ! تم ایک نیک اور فراخ دل کی مالک ہو۔ 

میں تمہیں تین موتی دیتا ہوں۔ جب بھی تم کو یا تمھارے نواسے کو بھوک لگے تو ان کو ایک دیگچی میں ڈالنا۔ اس طرح آپ کا پسندیدہ کھانا جو آپ نے اس وقت سوچا ہوگا دیگچی میں آجائےگا ‘‘ اتنا کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ اندر آکر نانی اماں نے یہ تین موتی دیگچی میں ڈالے تو اور ڈھکن کھولا تواس میں بکرے کے گوشت کا پلاؤ تھا۔ اس طرح روزانہ ایک نیا کھانا انہیں کھانے کو مل جاتا۔ نہ صرف خالد اور اس کی نانی اماں روزانہ مزے مزے کے کھانے کھاتے بلکہ پورے قصبے میں بھی تقسیم کر دیتے۔

ایک دفعہ وہی بزرگ نانی اماں کے خواب میں آئے اور کہا کہ ’’ اے نیک دل عورت ! قصبے کے لوگوں کو کھانا کھلانے سے بہتر ہے کہ تم ان کےلئے روزگار کا بندوبست کرو۔ ابھی اٹھ کر یہ تین موتی اپنی بڑی صندوق میں رکھو ۔صبح صندوق کھولوگی تو وہ سکوں سے بھری ہوئی ہوگی۔ 

ان سکوں سے سامان خرید کر ایک بڑی دکان کھول لینا اور قصبے کے کچھ ضرورت مندوں کو وہاں کام پر رکھ لینا۔ دکان سےخوب برکت ہوگی ۔ اپنے نواسےسے کہنا کہ قصبہ میں ایک بڑاکارخانہ لگائے اس سے لوگوں کو روز گار ملے گا۔‘‘

صبح نانی اماں نے خواب خالد کو بتایا ۔ دونوں نے کمرے میں جاکر صندوق کھولا تو واقعی وہ سکوں سے بھرا ہوا تھا ۔ خالد اسی وقت شہر گیا اور دکان کے لیے بہت سارا سامان خرید کر لے آیا اور قبضے میں دکان کھول لی۔ 

گاؤں کے لوگوں کو دکان پر بٹھایا، یوں اُن کو بھی روز گار مل گیا ۔چھ ماہ بعد خالد نے قصبے میں ایک بڑا کارخانہ لگوایا۔ اس طرح پورے قصبے کے بے روزگار لوگوں کو روزگار مل گیا ۔ لوگ خوشحال زند گی گزارنے لگے۔

بچو!حالات سے تنگ آکر کبھی مایوس نہیں ہونا۔ اللہ سب کی مدد کرتا ہے، بس محنت سے جی نہ چرانا۔