• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادیب کا تعارف کہانی کا انتخاب، علی حسن ساجد

سعادت حسن منٹو معروف افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے بھی کچھ کہانیاں اور مضامین قلم بند کئے۔ 11 مئی 1912ء کو ضلع لدھیانہ پیدا ہونے والے سعادت حسن منٹو کے دوست انہیں ٹامی کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے، اس لئے ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی، پھرچوتھی جماعت میں اسکول میں داخلہ لیا۔ 

میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد 1931ء میں پاس ہوکے ہندو سبھا کالج میں میں داخلہ لیا لیکن جلد اسے چھوڑ کر، ایم او کالج میں داخلہ لے لیا- انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کےتحریر کردہ افسانے، مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت رکھتے ہیں، اردو دنیا میں ایک معتبر مقام حاصل کیا۔ 

ان کے کئی افسانوی مجموعے،خاکے اور ڈراموں کی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ 18 جنوری1955 ء کو سعادت حسن منٹوکا انتقال ہوگیا۔ پیارے بچو! اس ہفتےایک ادیب ایک کہانی میں ان کی بچوں کے لئے لکھی ہوئی ایک کہانی ”شیر آیا شیر آیا دوڑنا“ پڑھیے ،یقیناََ اسے پڑھ کر آپ سب لطف اندوزہوں گے۔

ایک اونچے ٹیلے پر گڈریے کا لڑکا دور گھنے جنگلوں کی طرف منہ کئے چلائے جا رہا تھا۔ ”شیر آیا شیر آیا دوڑنا۔“

بہت دیر تک وہ اپنا گلا پھاڑتا رہا، اس کی بلند آواز بستی میں بہت دیر تک گونجتی رہی، جب چلا چلا کر اس کا حلق سوکھ گیا تو بستی سے دور تین بوڑھے لاٹھیاں ٹیکتے ہوئے آئے اور گڈریے کے لڑکے کو کان سے پکڑ کر لے گئے۔

پنچایت بلائی گئی۔ بستی کے سارے عقل مند جمع ہوئے اور گڈریے کے لڑکے کا مقدمہ شروع ہوا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے غلط خبر دی اور بستی کے لوگوں کو خواہ مخواہ پریشان کیا۔

لڑکے نے کہا ”میرے بزرگو! آپ غلط سمجھتےہیں۔ شیر واقعی نہیں آیا تھا، پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آہی نہیں سکتا۔“

لڑکے نے باادب پوچھا ”کیوں“؟

جواب ملا ”محکمہ جنگلات کے بڑے افسر نے ہمیں لکھا تھا کہ شیر بوڑھا ہوچکا ہے۔“

لڑکے نے کہا ”لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ وہ جوان ہونے کے لئے بہت سی جڑی بوٹیاں کھا رہا ہے۔“

پزرگوں نے کہا،”یہ افواہ تھی افسر سے ہم نے اس بارے میں پوچھا تو اس نے ہمیں یہ لکھا تھا کہ شیر نے تو اپنے رہے سہے دانت بھی نکلوا دیئے ہیں، کیونکہ وہ اپنی زندگی کے باقی دن خدا کی یاد میں گزارنا چاہتا ہے۔“

لڑکے نے بڑے جوش کے ساتھ کہا ”میرے بزرگو! ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو“۔

بزرگوں نے کہا ”ہرگز نہیں، ہمیں محکمہ جنگلات کے افسر پر پورا بھروسہ ہے، اس لئے کہ وہ سچ بولنے کی قسم کھا چکا ہے۔“

لڑکے نے پوچھا ”کیا یہ قسم جھوٹی نہیں ہوسکتی۔“

بزرگ غصے میں چلائے ”ہر چیز جھوٹی کیسے ہوسکتی ہے، تم خود جھوٹے ، مکار اورچال باز ہو۔“

لڑکا مسکرایا ”میں سب کچھ ہوں، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں وہ شیر نہیں جو کسی بھی وقت یہاں آسکتا ہے۔ جنگلات کے محکمے کا بڑا افسر بھی نہیں جو سچ بولنے کی قسم کھا چکا ہے میں “۔

پنچایت کے ایک سفید بالوں والے بوڑھے آدمی نے لڑکے کی بات کاٹ کر کہا ”تم اسی گڈریے کی اولاد ہو، جس کی کہانی سالہا سال سے اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہی ہے۔ کان کھول کر سن لو کہ تمہارا حشر بھی وہی ہوگا جو اس کا ہوا تھا۔ شیر آئے گا تو تمہاری تکہ بوٹی کر دے گا۔“

گڈریے کا لڑکا پھر مسکرایا ”بزرگو! میں تو اس سے لڑوں گا ۔مجھے تو ہر گھڑی اس کے آنے کا کھٹکا لگا رہتا ہے، تم کیوں نہیں سمجھ جاتے کہ ”شیر آیا شیر آیادوڑنا“ والی کہانی جو اپنے بچوں کو پڑھاتے ہو، آج کی نہیں۔

آج کی کہانی میں تو ”شیر آیا شیر آیا دوڑنا“ کا مطلب ہے کہ خبردار رہو، ہوشیار رہو۔ شیر آئے یا نہ آئے، ہوسکتا ہے کوئی گیدڑ ہی منہ اٹھا کر ادھر چلا آئے، مگر اس حیوان کو بھی تو ہمیں اپنی بستی میں گھنسے سے روکنا چاہئے۔“

بزرگ کھلکھلا کر ہنس پڑے ”کتنے ڈرپوک ہو تم گیدڑ سے ڈرتے ہو۔“

گڈریے کے لڑکے نے کہا ”میں شیر سے ڈرتا ہوں نہ گیدڑ سے مگر، ڈرتا ہوں، اس لئے کہ یہ حیوان ہیں اور ان کی حیوانیت کا مقابلہ کرنے کے لئے میں اپنے آپ کو ہمیشہ تیار رکھتا ہوں۔ میرے بزرگو! زمانہ بدل چکا ہے، اپنے اسکولوں سے خدا کے لئے وہ کتاب اٹھا لو، جس میں ”شیر آیا شیر دوڑنا“ والی پرانی کہانی چھپی ہے۔ اس کی جگہ یہ نئی کہانی پڑھاؤ۔“

ایک بوڑھے نے کھانستے کھنکھارتے ہوئے کہا ”بھائیو! یہ لڑکا ہمیں غلط راستے پر لے جانا چاہتا ہے، اس کا سر پھر گیا ہے۔“

دوسرے بڈھے نے غصے سے کانپتے ہوئے کہا ”اس کو فوراً قید کردو۔“

گڈریے کے لڑکے کو فوراً جیل میں قید کردیا گیا۔

اتفاق کی بات ہے، اسی رات شیر بستی میں داخل ہوا، بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ لوگ بستی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ باقی شیر نے شکار کر لئے مونچھوں کے ساتھ لگا ہوا خون چوستا ہوا جب شیر جیل کے پاس سے گزرا تو اس نے لوہے کی مضبوط سلاخوں کی پیچھے گڈریے کے لڑکے کو دیکھا۔

شیر نے اس لڑکے سے کہا ”کون ہو تم؟“

لڑکے نے جواب دیا ”میں گڈریے کا لڑکا ہوں۔“

شیر کی آنکھوں میں خون اترا آیا۔”افوہ ، توتم ہو گڈریے کے لڑکے ، وہی جو میرے آنے کی اطلاع دیا کرتے تھے ۔ باہر آؤ میں تمہیں اس کی سزا دینا چاہتا ہوں۔“

لڑکا مسکرایا۔ جنگل کے بادشاہ، مجھے افسوس ہے کہ میں باہر نہیں آسکتا، میرے بزرگوں نے جو سزا مجھے دی ہے، اس نے مجھے تمہاری سزا سے محفوظ کردیا ہے۔“

اور شیر دانت پیس کر رہ گیا۔