تحریر:ایم اسلم چغتائی… لندن انگریزوں کی حکمرانی کے دور میں ہندوستان کے ہندو اور مسلمان مل کر انگریز کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، جس کی قیادت میں مہاتما گاندھی، محمدعلی جناح و دیگر اہم شخصیات نمایاں تھیں۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران مسلمان رہنمائوں نے محسوس کیا کہ انگریز کے جانے کے بعد مسلمان ہندو کی غلامی میں چلے جائیں گے، حالانکہ مسلمانوں نے ہندوستان پر انگریز کے آنے سے پہلے ہزار سال برصغیر پر راج کیا۔ محمد اقبال نے29دسمبر1930کو مسلم لیگ کے الٰہ آباد کے جلسے میں برصغیر کے اندر ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد کو ایک علیحد ریاست میں ملا دیا جائے اسی لیے علامہ اقبال کو مفکر پاکستان کہا جاتا ہے، شاعر مشرق کے خواب کو عملی جامہ قائداعظم محمدعلی جناح نے پہنایا اور علامہ کے خواب کو حقیقت بنا دیا، کچھ لوگ دنیا کی تاریخ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور کچھ عظیم لوگ خود تاریخ کو بدل کر رکھ دیا اور دنیا کے نقشے پر پہلی نئی اسلامی ریاست پاکستان بناکر نئی تاریخ رقم کی۔افسوس کہ آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے تعبیر دی، قائداعظم کے پاکستان میں مسلمان اور اقلیتی غیر مسلم شانہ بشانہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے، اس پاکستان میں اقلیتوں کو اپنی اپنی مذہبی روایات یعنی دوسرے مذاہب کے لوگ اپنی مرضی، اپنی مذہبی روایات کے مطابق زندگی بسر کریں، جناح کے پاکستان خاندانی وڈیروں، امیروں کی حکمرانی کا تصور نہ تھا۔ قائداعظم کے پاکستان میں یہ ملک دنیا میں ایک مثالی، فلاحی جمہوری ریاست بننا تھا اور اس مملکت نے اسلامی دنیا کی سربراہی کرنی تھی۔ اس پاکستان میں مذہبی فرقہ واریت اور قومیت کے نام پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا بلکہ پوری قوم متحد رہتی اور ترقی کی منازل طے کرتی اور آگے بڑھتی، قائد کے پاکستان نمیں کوئی بھوکا نہ سوتا، کوئی بھکاری نہ ہوتا، اس ملک میں حکمران امداد اور قرضوں کے لیے ملک، ملک نہ جاتے، بلکہ اپنی ’’سونے کی چڑیا‘‘ ملک کی قدرتی معدنی بے پناہ وسائل کا پورا فائدہ اٹھاتے، اپنی ساٹھ فیصد آبادی کے نوجوانوں سے اپنے ذہن افراد سے اس ملک کو حقیقت میں سونا بنا دیتے، جہاں دنیا سے غریب ممالک سے افراد آکر کام کرتے، قائد کے خوب صورت پاکستان کے تاریخی مقامات اور شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کی جنت جیسی وادیوں میں دنیا بھر سے سیاح آکر پاکستان کی معیشت کو تقویت دیتے، اس ملک میں قرضہ لینے کی بجائے غریب ملکوں کو قرضہ فراہم کیا جاتا، اس ملک میں فقط چند ہی خاندان سیاہ و سفید کے مالک نہیں ہوتے اور دس کروڑ کی کثیر آبادی غربت کی لکیر کے نیچے کی زندگی نہ بسر کررہی ہوتی۔ قائداعظم کے پاکستان میں کشمیر، دہشت گردی جیسے مسائل بھی نہ ہوتے، اس ملک میں امریکی ایک ڈالر تین روپے سے تین سو روپے تک نہ پہنچتا۔ (1950میں امریکی ڈالر3.3پاکستانی روپے کے برابر تھا۔) محمدعلی جناح کے پاکستان میں اکیسویں صدی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ملک اندھیروں میں نہ ڈوبا ہوتا، اس ملک میں پانی لینے کے لیے قطاریں نہ بنتیں، اس ملک میں بچی کی شادی کرنے کے لیے یا علاج کرانے کے لیے غریبوں کو اپنی جائیداد نہ فروخت کرنی پڑتی اور نہ ہی غریب خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے اور نہ ہی اپنی اولادوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے۔اس پاکستان کی سونا اگلتی زمین زرعی ملک میں اجناس، گندم، ٹماٹر وغیرہ کھانے، پینے کی دیگر اشیاء درآمد کرنے کی بجائے برآمد کی جاتیں، قائداعظم کے پاکستان میں جنگل کاٹنے کی بجائے مزید پودے لگائے جاتے اور ملک کو بنجر ہونے اور خشک سالی سے بچایا جات، اس ملک میں حکمران صرف اپنی جائیدادیں بنانے، قرضے لینے اور ذاتیات کی سیاست کرنے کے لیے برسراقتدار نہ آتے، عوام کے پیسوں سے عیاشیاں نہ کرتے، آنے والی نسلوں کو بھی قرضوں میں نہ ڈبوتے، اپنے دل پر ہاتھ کر کر سوچیں کہ آج کا یہ پاکستان علامہ اقبال کے خواب والا پاکستان یا قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان ہے۔